جموں و کشمیر میں فارسی کا سقوط اور اردو کا فراغ
جموں و کشمیر:تاریخی ادبی پس منظر
پنجۂ ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا
اقبال
کشمیر میں ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پچھلے چھ سات سو سال سے بیسویں صدی کے اوائل تک کشمیر میں کشمیری کے علاوہ فارسی ہی شاعری کی موثر و مروجہ زبان رہی ہے۔ کشمیری ادب میں شتی کنٹھ، لل دید اور نندرشی یعنی شیخ ںورالدین نورانی پہلے دور کے عوامی شاعر ہیں۔لل دید کے "واکھ” نند رشی کے’شرُکھ” اور حبہ کے "وتن”کشمیری ادب کے شہکار تصور کئے جاتے ہیں ۔
عارفانہ عہد کا یہ ادب اصلاحی و مزاحمتی نوعیت کا تھا
لل دید کہتی ہیں:
دیو وَتا دِیْوَر وَتَا
ہئر بُن شُکھ واٹ
یِیکِم وُپْدَیسْ کرئ بَتَا
کر مَنسْ تے پَوَنَسْ سنگاٹ
لل دید
یعنی دیوتا کی پتھر کی مورتی اور عام تراشا ہوا پتھر اوپر سے نیچے تک ایک ہی جیسے ہیں
اے پنڈت تو بتا تجھے ایسا کرنے کا کس نے حکم دیا ہے تو روح اور ہوا کو ایک کیوں نہیں کرتا۔
لیکن یہ نفس کی گٹھلی توڑنی آسان نہیں نند رشی کہتے ہیں
نفسِ میانِ تیروَےْ اَگٔ
جسمے دَگٔ پُھلْہَم نہ ذات
نند رشی
یعنی
اے میرے نفس تو خوبانی کی گٹھلی ہے میں نے تجھے توڑنے کی بہت کوشش کی( لیکن سب بے سود)
اسکے بعد سلاطیں شاہ میر کے دور میں بھی کشمیری زبان کو فروغ ملا کشمیری کا چک شاہی ، رومانی شاعری کا دوسرا دور تھا اسکے بعد تیسرا دور محمود گامی کا ہے اس عہد میں کشمیری زبان میں مثنویات کا گرانقدر اضافہ ہوا چند بڑے نام : مقبول شاہ کرالہ واری ،عبدالوہاب پرے وغیرہ مشہور ہیں۔ کشمیری کا چوتھا دور غلام احمد مہجور اور عبداالاحد آزاد کا مرہون منت ہے۔
کشمیر میں بھی بر صغیر کے دوسرے حصوں کی طرح اردو کا چلن کسی نہ کسی طرح پچھلے دو ڈھائی سو سال رہا ہے ۔ اسکی ایک وجہہ کشمیر اور مغربی پنجاب کے شہر لاہور کے پرانے روابط اور تعلقات ہیں۔ شروع شروع میں کئی وجوہات کی بنا پرکشمیر میں اردو کی جڑیں ذیادہ گہری نہ جاسکیں جس کی پہلی اور بڑی وجہہ، فارسی کا دفتری زبان ہونا ہی تھی مغل اور اسکے بعد کے حکمرانوں نے فارسی پر ہی زور دیا۔ رفتہ رفتہ اردو نے ریاست کی تمام علاقائی زبانوں کو متاثر کیا ۔ڈوگری اور کشمیری بڑی زبانوں میں ہزاروں الفاظ داخل ہوگئے کشمیری زبان نے اپنے مزاج کے مطابق الفاظ کو اڈاپٹ کیا ۔ چند الفاظ دیکھیں کیسے کشمیری میں مدغم ہوگئے:
ٹوپی سے ٹوپ، بادام سے بادم،نمک یا لون سے نون، چمڑا سے چمری، چنے کی دال سے چن دال،توا سے تاو، کان سے کن ، کبوتر سے کوتر، موم بتی سے موم بات وغیرہ وغیرہ یہ اثرات الفاظ پر ہی نہیں اسکے افعال پر مرتب ہوئے آیا سے آو، کرو، کر وغیرہ وغیرہ البتہ تہزیبوں کے سنگم پر ہماری زبانوں کی فرہنگ بھی متاثر ہوئی۔
صوبہ جموں میں ادبی روایت
جموں اور اسکے نواحی اضلاع میں ڈوگری اور وادی کشمیر میں کشمیری ہی روزمرہ کی زبانیں تھیں ڈوگری میں زیادہ تر شاعری دیش بھگتی ، سماجی نظام اور حالات زمانہ کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اسی دور میں گوری شنکر نے گیتا کا ترجمہ ڈوگری میں کیا ۱۹۳۰ع اور ۱۹۴۰ع کے بیچ میں ڈوگری کے شاعر دینو بھائی پنت ابھرے. ڈوگری شاعری مییں دیش بھگتی نمایاں عنصر ہے۔یا پھر سماجی نامساوات اور ظلم و تعدی کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے مثلاً
دینو بھائی پنت کی ایک دوبیتی یا دوپدی یہ ہے۔
سُرگے نیا دیس ڈوگرہ
اے دے نے گن گاکے
یعنی یہ ڈوگرہ دیش جنت جیسا ہے آو ہم مل کر اس گن گن گائیں ۔ تودوسرا ڈوگرا شاعر مثلاً کشن سمیلپوری ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہے۔۔
سُرگا دی گل نئیں لا اڑیا
اپنے دیس دے گُن گا اڑیا
یعنی اے دوست ،جنت کی بات نہ کر اپنے دیس کے گیت گن گا
جلمے دا منہ مکھ پرتی اوڑو
نماں، سماج بناؤ ،اٹھو (اونکارسنگھ آوارہ)
یعنی ظلم کا رخ پلٹ دو نیا سماج بناو، اٹھو
شام دت دیپ کی دوبیتی یا دوپدی:
منزل کتاں اے کُس پاسے
ہلہ نماں اے کُس ہاسے
اے گل نیہہ اے کنوں جتوگ
دکھو کہ نیاں اے کس پاسے
یعنی منزل کہاں ہے کس طرف ہے یہ نئی ہلڑ کس طرف ہے
بات یہ نہیں کہ تم جیتو گے دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کس طرف ہے۔ یعنی انصاف کا تقاضا کیا ہے۔
کشمیری کی طرح دوگری بھی اردو سے متاثر ہوئی۔ ڈوگری پنجابی کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
مہاراجہ گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ کے عہد میں ڈوگری کو ریاستی سرکاری زبان بنانے کی ان تھک کوشش کی گئی ۔ یہ تحریک ۱۹۴۷ عیسوی تک چلتی رہی ۔ ڈوگری کے فروغ کے ۱۹۴۳عیسوی میں ڈوگری سنستھا قائم کی گئی۔ ڈوگری زبان بھی ہندوستانی اور اردد سے متاثر ہوئی۔ بعض الفاظ اردو سے ڈوگری میں منقلب ہو گئے۔ مثلاً ظلم سے جلم ، گذارا سے گجارا، نیا سے نماں، ملاقات سے ملاٹی،جیتے گا سے جتوگ وغیرہ وغیرہ الفاظ بن گئے۔یہ زبانوں کا لین دین ایسے ہی چلتا آیا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا۔ البتہ ہندی اور سنسکرت کے مقابلہ میں ہندی اور سنسکرت کا اثر اغلب ہے۔
ریاست کے پہاڑی مثلا پونچھ راجوری اوڑی ٹنگڈار کرناہ وغیرہ علاقوں میں گوجری ہ
پہاڑی یا پوٹھواری لداخی یا بلتی شینا بھدواہی بولی جاتی تھی ۔ گوجری پہاڑی زبانیں پنجابی کے زیر اثر ہی رہی ہیں خطۂ پیر پنجال میں سی حرفی ماہیا، ٹپے یہ سب اصناف پنجابی سے بارآور ہوئی ہیں ۔ میاں محمد کا سیف الملوک، محمد بوٹا کی سی حرفی پنج گنج ہوں یا ابیات سلطان باہوں وغیرہ ان کےاثرات ہر جگہ دکھائے دیتے ہیں۔ ہندکو پوٹھواری بشمول ڈوگری اگر میں غلطی پر نہیں تو گرینڈ پنجابی کے لہجے ہیں جبکہ گوجری اور راجستھانی مسیری بہنیں ہیں پہاڑی اور گوجری میں پگرانڈ پنجابی کے لہجے ہیں مزاحیہ شاعری طبع تفنن کے طور پڑھی اور سنی جاتی سائیں قادر بخش عوام میم مقبول تھے وہ مذاحیہ ابیات بھی لکھتے تھے اور آزادی کے بعد گوجری پہاڑی نے کافی ترقی کرلی ہے۔ دیہاتوں میں لوگوں کا مذاق سخن مختلف قسم کا ہوتا ہے ۔
دیہاتوں میں شاعری کو یا تو مذہب اقدار کی تبلیغ کے لئے میڈیم سمجھا جاتا ہے یا پھر سماج کی رسموں رواجوں پر ٹھٹھا کیا جاتا ہے مثلاً
داس علی کہتا ہے:
میم مرشد نالوں دانا بید چنگے
جہڑے دسدے نی رہ رحمتاں دے
مرشد آکھدے بنو لنگوٹ، لیکن
دانا دسدے نی بنن تِہمتاں دے
مرشد آکھدے کرو قربان ککڑ
دانا دسدے نی دارو زحمتاں دے
داس علی ایہہ پیر ،فقیر، مرشد
کاٹھی پام لیندے اپر احمقاں دے
یعنی
پیروں اور مرشدوں سے دانا بید اور حکیم ہی بہتر ہیں
پیر اور مرشد لنگوٹی باندھنے کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ دانا لنگی یاتہمتیں باندھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
لنگوٹ ترک دنیا کا استعارہ اور تہمت یا لنگی محنت کشوں اور کسانوں کا لباس ہے
پیر اور مرشد جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو مرغا چڑھانے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ دانا زحمتوں یعنی بیماریوں کے علاج بتاتے ہیں۔۔
داس علی یہ پیر اور مرشد احمقوں پر اپر کاٹھی کس کر باندھ لیتے ہیں
داس علی کی ایک اور چاربیتی جسے گوجری پوٹھواری ہندکو میں بیت ہی کہاجاتا ہے۔
مویا راگی نہ راگ دی تال دیندا
ساز مویا قوال بجاوندا ناں
مویا ماندری سرپ نہ پکڑ سکے
مویا سرپ وی ڈنگ چلاوندا ناں
نقش مویا نقاش نہ لکھ سکے
مویا پادری واعظ سناوندا ناں
داس علی ایہہ مڑھی تے گورا والا
کم زندیاں دے کدی آوندا ناں
داس علی۔ ( بحوالہ کشمیر میں اردو مصنف حبیب کیفوی)
یعنی جسطرح مرا ہوا راگی سرتال اور قوال قوالی نہیں سنا سکتا
مرا ہوا سپیہرا سانپ نہیں پکڑ سکتا اور مرا ہوا سانپ بھی ڈنک نہیں مار سکتا
مردہ نقاش کوئی تصویر نہیں بناسکتا مرا ہوا پادری واعظ نہیں سنا سکتا
داس علی یہ مرگھٹوں اور مزاروں والے کسی زندہ شخص کو کچھ بھی فایدہ نہیں دے سکتے۔۔
داس علی نے دیہاتی علاقوں کے لوگوں کے اندھ وشواش کی خوب خبرلی ۔
فارسی کا سقوط اور اردو کا فروغ:
کشمیر میں فارسی ادب کی لگ بھگ چار سو برس کی تاریخ مرتب ہوچکی ہے کشمیر میں فارسی زبان علماء اور صوفی شعرا کے علاوہ درباری شعرا نے ہی استعمال کی عوام میں فارسی مقبولیت نہ ہوسکی ۔ دفتری زبان تھی لہذا چار ناچار سیکھنا پڑھتی تھی مقامی کشمیری فارسی شعرا میں بابا داود خاکی شیخ یعقوب صرفی، محسن فانی، ملا طاہر غنی کشمیری وغیرہ کے نام مشہور ہیں بجز غنی کاشمیری ان شعرا کے یہاں بھائی چارہ تغزل کی چاشنی ، مرور زمانہ و تلخئ حالات کے سوا کچھ نہیں ملتا غنی پہلا کشمیری نژاد فارسی شاعر ہے جسنے روایت میں توسیع کی ۔ ورنہ تو شعرا لکیر ہی پیٹتے رہے۔
ہم ز دل دذدیدہ صبر و ہم دل دیوانہ را
یارمن باخانہ می دزدد متاع خانہ را
بر رخ فگند چاشت گہ آن مہ نقاب را
پیش از زوال شام رسید آفتاب را
یعقوب صرفی
ملاطاہر غنی کشمیری ملا محسن فانی کے واحد ایسا شاعر ہے جن کی شہرت ملکی حدود پھلانگ کر ملک فارس تک جاپہنچی۔ ایران میں آقای احمد کریمی کے توسط سے دیوان غنی شایع ہوچکی ہے۔ غنی کشمیری ملا محسن فانی کے شاگرد تھے۔ غنی انقلابی مزاج کے شاعر تھے وہ حالات سے بیزار اور انقلاب کے خواب دیکھتے تھے
ع غنی در ملک دنیا انقلابی آرزو دارم
بسکه عیش می کشان تلخ است در ایام ما
باده هم شیرین نباشد در مذاق جام ما
محسن فانی
ترجمہ ہمارے عہد میں میکشوں کا عیش و آرام تلخ ہوگیا ہے شراب بھی ہمارے مذاق سخن کے مطابق نہیں ۔
چشم دارم کز غمت چشم تری پیدا کنم
از برای خوردن خون ساغری پیدا کنم
محسن فانی
ترجمہ
آنکھ اس لئے کہ تیرے غم میں اسے تر رکھوں یہ انکھیں خون دل پینے کےلئے پیالے ہیں
فانی ہندوستانی آب و ہوا کا خوب ذکر کیا ہے ہندی الفاظ کو استعما کیا۔ بیل (بہل) پان، راگ بسنت وغیرہ
نا امن چنان گشته که چون مردم چشم
تا در خانه نه بندم نه برد خواب مرا
غنی کشمیری
ترجمہ
زمانہ میں بد امنی بہت ہے میں آنکھ کی پتلی کی طرح جب تک اپنا دروازہ بند نہ کرلوں مجھے نیند نہیں آتی ۔
همچو سوزن دایم از پوشش گریزانیم ما
جامه بهر خلق می دوزیم وعریانیم ما،
غنی کشمیری
ترجمہ ہم سوئی کی طرح لباس سے گریز کرتے ہیں اور دوسروں کے جامہ سیتے ہیں اور خود ننگا رہتے ہیں۔
کشمیر میں فارسی شاعری کی روایت ساتھ ریختہ کےپرانے تذکروں میں کشمیری شاعروں کا ذکر بھی ملتا ہے تذکرۂ ہندی میں مصحفی نے عبداکغنی قبول کشمیری کے اشعار نقل کئے ہیں
دل یوں خیالِ زلف میں پھرتا ہے نعرہ زن
تاریک شب میں جیسے کوئی پاسباں پھرے
عبد الغنی قبول کشمیری
خط نے ترا حسن سب اڑادیا
یہ سبںز قدم کہاں سے آیا
جب آ خزاں چمن میں ہوئی آشنائے گل
تب عندلیب جل کے پکاری کے ہائے گل
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
میں ہائے دل پکاروں تو چلائے ہائے دل
محمد علی حشمت فررند قبول
جموں کشمیر میں اردو کا فروغ:
ریختہ کے ارتقاء کے ساتھ پورے بر صغیر میں فارسی شاعری کا چلن بتدریج کم ہوتا گیا۔
بالآخر اردو نے اس اپنی اسلف و اسبق زبان کی جگہ لے لی ۔ جموں و کشمیر میں عبدالغنی قبول کے قبیل اور بھی بہت سے شعرا ہوئے ہیں اوراس قسم کی اور بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں غالباً کشمیر سے پہلا کشمیری نژاد ریختہ گو شاعر کمال الدین حسین رسوا ہے ۔راجوری سے سردار شیر سنگھ، میر پور سے میاں غلام محی الدین میر پوری نے اردو مثنوی گلزار فقیر،۱۷۱۸ عیسوی میں لکھی تھی ان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ڈوگرہ عہد میں گلاب سنگھ اور ہری سنگھ نے ڈوگری زبان کو ریاست کی سرکاری زبان بنانے کی ںہت کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔
رنبیر سنگھ کے عہد میں ۱۸۷۶ تا ۱۸۹۰ عیسوی یعنی تقریباً پندرہ سال حکیم نورالدین قادیانی کی نگرانی میں کام کرتا رہا۔ حکیم نورالدین قادیانی شاہی طبیب بھی تھے اور دار الترجمہ کے نگران بھی تھے۔انیسوی صدی میں عیسائی مشنریوں نے بھی اردو کو فروغ دیا ۔ یہ لوگ کتیبےاوررہنمایے
Pamphlets and Guides
اردو میں لکھ کر تقسیم کرتے تھے سیالکوٹ میں سکاچ کالج اور کشمیر میں عیسائی مشنری ٹینڈل بسکو نے ۱۸۷۴عیسوی میں Tyndale Biscoe School اسکول کی بنیاد ڈالی تھی۔ ڈوگرہ عہد میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے تعلیم کی طرف کوئی توجہہ نہیں دی۔البتہ اسنے فارسی میں دیوان کرپا رام سے گلاب نامہ ضرور لکھوایا یہ سچ ہے اردو کے فروغ میں عیسائی مشنریوں اور قادیانیوں مثلاًحکیم نور الدین قادیانی اور بہت سے پنجابی مولویوں اور عہدہ داروں کا اہم رول رہا ہے . رنبیر سنگھ کے دور میں پاٹھ شالائیں اور مکتبیں کھولی گئیں ۔انیسویں صدی کے اخر میں بدیس بلاس سبھا اردو ہندی اخبار کشمیر شایع ہونا شروع ہوا۔
بیسویں صدی میں اردو رسائل اور جرائد نے بھی ادب کو فروغ دیا۔مثلاًماہنامہ مخزن لاہور
ماہنامہ گلچیں لاہور،ماہنامہ نقاد کراچی،ماہنامہ ماہ نو کراچی،ماہنامہ ہمایوں ،ماہنامہ بہار کشمیر وغیرہ اسی طرح بہت سی فلاحی اور سیاسی انجمنوں نے بھی اردو کو بہت فروغ دیا۔ 1905 عیسوی میں ہندو ہائی اسکول سری نگر کو کالج کی توسیع ملی۔
انجمن اسلامیہ ۱۹۰۰عیسوی انجمن نصرت اسلام سرینگر، بزم سخن ۱۹۰۹عیسوی اور انجمن معین اسلام ۱۹۱۵ وغیرہ تنظیموں کے مقصد سیاسی تھے لیکن اردو کے نفاذ میں ان تنظیموں نے بھرپور حمایت کی۔ جموں کے پیر مٹھا میں محرم کی مجلسوں نے بھی اردو کی داغ بیل میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس عہد میں پونچھ میں بھی اردو کی ہلچل تھی ۔ نبی ںخش نظامی ، تحسین جعفری ،چراغ حسن حسرت اور کئی دوسرے ادیبوں نے اردو کی ترویج میں اپنا رول ادا کیا۔کشمیر میں محمد الدین فوق مورخ اور جرنلسٹ نے اردو میں اہم کتابیں لکھیں اسی عہد میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر بھی کشمیر میں اردو کے معتبر نام ہوئے ہیں ۔
پہلی بار ۱۹۲۵ عیسوی کے بعد تعلیمی نظام میں اصلاحی کوشسیں کی گئیں۔ جموں میں پرنس آف ویلز کالیج نے اردو میں پرنس آف ویلز کالج توی رسالہ نکالنا شروع کیا۔کشمیر ہفتہ وار ۱۹۲۶ع امرتسر یے نکلتی ۔ مدیر خواجہ غلام محی الدین تھے۔پرتاب سنگھ کے عہد۱۹۳۵ کے بعد سری نگر میں پریس عام ہوگئے ۔ اس سے پہلے تمام کشمیری اخبارات لاہور یا امرتسر سے نکلتے تھے جموں و کشمیر میں پریس سرکار کی تحویل میں تھا۔
عبدالقادر سروری ،کشمیر میں اردو بحوالہ پنڈت دیا کرشن گردش لکھتے ہیں :
"مہاراجہ شری پرتاب سنگھ جی کے عہد حکومت میں دفتری زبان اردو قرار دی گئی ڈوگری زبان کاٹائپ اور فونڈری فروخت کردی گئی اس زمانہ میں سرکاری یادفتری کتابیں طبع ہونی شروع ہوئیں اسطرح ڈوگری سنسکرت اور فارسی کا دور اختتام پزیر ہوا۔ پرتاپ سنگھ جی کے عہد حکومت میں چھاپہ خانہ کا نام بھی تبدیل کردیا گیا نیا نام رنبیر پرکاش برقی پریس رکھنا تجویز ہوا (خواجہ غلام السیدین )
آزادی سے قبل جموں و کشمیری میں ہندی کو سرکاری بنانے کے حامی بھی سرگرم تھے۔ لیکن
ع
۱۹۳۹ ع کی وہ رپورٹ جو خواجہ غلام السیدین کی سربراہی میں مرتب ہوئی اور ڈاکٹر ذاکر حسین بھی اسکے رکن تھے
اردو ادب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جاتی رہے گی ۔کمیٹی کی سفارش یوں تھی:
"وہ زبان جو تاریخی اور تعلیمی اسباب کی بنا پر ریاست کی عام مشترکہ زبان ہے اور ریاست کے مختلف حصوں میں لوگ جسے بولتے ہیں وہ اردو ہے جو ریاست کے تمام مدرسوں میں پہلے درجہ سے لے کر اوپر تک کے لئے ذریعۂ تعلیم بھی ہے اس میں شک نہیں کہ اردو ریاست میں رہنے والوں کی اکثریت کی مادری زبان نہیں لیکن یہ ڈوگری لہندا اور پنجابی سے بہت قریب ہے اور ایک حد تک گوجری اور پہاڑی سے بھی ملتی ہے۔ لہذا ان لڑکوں کے لئے جو یہ زبان نہیں جانتے ہیں اردو کا ذریعہ تعلیم ہونا۔کوئی دشواری کا سبب نہیں اسی لئے ان علاقوں میں جہاں تک تعلیم کا تعلق ہےعملاً نیز تعلیمی اعتبار سے اردو کےسوا کوئی دوسری زبان ذریعۂ تعلیم نہیں ہوسکتی اور اردو نہ صرف لغت کے اعتبار سے وسیع اور ترقی یافتہ زبان ہے بلکہ اس میں دوسری زبانوں سے اخذ کرلینے کی صلاحیت موجود ہے ۔””
علاوہ بر ایں ریاستی اسمبلی نے بھی اردو کے حق میں قرارداد پاس کی تھی لیکن مہاراجہ کے حکم سے اشٹامپوں پر صرف ہندی کے الفاظ چھاپے گئے ۔ الغرض علاقائی مفادات اور زبانوں کی محبت سے اوپر اٹھ لوگ کشمیر کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی اردو کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ہندوستاں کے دوپھاڑ نہیں ہوئے تھے ۔ ان دنوں "رنبیر پریس کی حکمت عملی سرکار نواز تھی روز نامہ انقلاب ۱۹۳۰ عیسوی نے کشمیرکے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر اردو میں شایع کیا عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر نے کھلی حمایت کی
کشمیر میں پریس کی آزادی دیر سے ملی جموں پہلا اخبار ۱۹۲۴ عیسوی میں لالہ ملکراج صراف نے جاری کیا جبکہ کشمیر نے معراج الدین احمد نے ۱۹۳۲ عیسوی میں ہفت روزہ پرچہ جاری کیا پھر اسکے بعدیہاں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گلگت کے لوگوں نے اردو کی ترویج میں مثبت اقدام اٹھائے۔ ڈوگرہ عہد میں لاہور سے علمی و تمدنی رابطہ استوار رہا اس لئے پنجاب سے علم سیکھ کر آنے والے لوگوں کی زبان اردو ہی تھی۔ جموں کے لوگ بھی اعلی تعلیم کے پنجاب جاتے تھی ۔ ڈوگرہ راجوں نے کافی سوچ بچار اور کچھ مجبوریوں اور اپنے وسیع تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو زبان کو فروغ دیا۔ کئی شخصیات کےنام ابھر کرسامنے آئے پیرزادہ محمد حسین عارف اورلالہ کنور سین دونوں اپنے اپنے عہد میں چیف جسٹس ہائی کورٹ کشمیر رہے اور انکے بعد جسٹس شاہدین ہمایوں، پروفیسر محمد اکبر منیر وغیرہ نےاردو ادب کو فروغ دیا۔جموں میں حکیم فیروزالدین طغرائی منشی لتھو رام نے احمدی پریس اور اردو کے فروغ کے لئے جانفشانی سے کام کیا
اب ہم بعض ادیبوں کا نمونۂ کلام پیش کریں گے تاکہ قارئین اردو شعری روایت کے خدوخال کو بغیر کسی تلقین کے خود ہی ذہن نشین کرلیں میں بعض شعرا کا تعارف بھی لکھ دیا ہے طوالت کے خوف سے بعض شعراء کے اشعار پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا کچھ ایسے گمنام سعرا ہیں جنہوں نے اردو زبان میں شاعری کم ہی کی ۔ کہنے کا مطلب وہ دوسری مقامی زبانوں کے بہت اہم شعرا تھے مثلاً اسمعیل ذبیح جو گوجری کے نامور شاعر ہیں اور اردو عربی کے ممتاز عالم تھے ملکی تقسیم کے بعد ہجرت کرکے ایبٹ آباد میں آباد ہوگئے تھے وہ عربی اور اردو کے نامور عالم تھے اور مدرس آزادی سے پہلے اپنے علاقہ اور دائرۂ کار میں اہمیت کے حامل ہیں تاریخ نے انہیں بھلادیا ہے
اب ہم حکیم منظور کے قریب ماضی اردو کے بعض شعرا کے کلام کی نامکمل اور بلا لحاظ زمانہ سی فہرست مرتب کریں گے اور انکے اشعار کی مثالیں پیش کریں گے کچھ نمایاںاور غیر نمایاں ادیبوں کے ناموں کی ادھوری سی فہرست یوں ہوسکتی ہے :
،چراغ حسن حسرت، ذبیح راجوروی، شورش کشمیری، خوشی محمد ناظر، چراغ حسن حسرت، رسا بھدرواہی،شفقت تنویر مرزا راجوروی و لاہوری، منشی صادق علی خاں ،غلامک حسین بیگ عارف ،کشپ بندھو،محمد یعقوب طالب بھمبر والے،نند لعل کول طالب،ڈاکٹر عماالدین جموں /میر پور، ،غلام رسول نازکی،عابد مناوری ، کشن سمیلپوری،شہ زور کشمیری،غلام محمد طاؤس بانہالی۔غلام علی بلبل،حامدی کشمیری، مہجور، مہندرینہ، امین کامل، رحمان راہی، قیصر قلندر، فاروق نازکی اور اسکے بعد ہم سیدھے حکیم منظور پر چلے جائیں کیونکہ یہ کتاب مزید حوالوں کی متحمل نہیں ہوسکتی
منظور حکیم کو سمجھنے کے لئے اسکے قریب ماضی کے حالات اور ادب کی نہج کو سمجھنا ضروری ہے۔
ذبیح راجوروی
اک غزل
کیا کروں جسنِ جہاں تیرے سوا
ہے وبال جاں یہ جاں تیرے سوا
تو ہی اک ہے میری ساری کائنات
میں ہوں اک بے خانماں تیرے سوا
شام تیرے وصل کی ہے صبح نور
صبح شام بیکساں تیرے سوا
ننگِ سجدہ ہے تو میری جبیں
کیا کوئی ہے آستاں تیرے سوا
ہوچکا ہوں نسم پہ تیرے ذبیح
کیا ہے دار الامتحاں تیرے سوا
غزل
صبح خنداں کے لئے لازم سکوت شام ہے
ہر نشاط دہر پابند غمِ ایام ہے
ہے جو انفاسِ مسلسل پر مدار زندگی
اعتبار زندگی پھر اک خیال خام ہے
اختلاف ظرف سے مظروف میں ہے پیش و کم
فرق ساقی کا نہیں، بادہ بادہ بقدر جام ہے
ہے بنا جرم ِ الفت حسن کی جلوہ گری
عشق بیچارہ تو ناکردہ گنہ عام ہے
ہے کسی کے عارضِ زیبا کا جلوہ یہ جہاں
بحث اتنی ہے فقط وہ کون ہے کیا نام ہے
شرط اول دید کی ہے دیدۂ بینا ذبیح
وہ تو بیٹھے ہیں سرِ بام اور جلوہ عام ہے
ذبیح راجوروی
رند تشنہ کام، تشنہ کام ہی آخر رہا
دیکھتے ہیں ہاتھ میں ساقی کے پیمانوں کو ہم
محمد اسرائیل مہجور
شورش کشمیری
شورش کشمیری سیاسی ذہنیت کے مالک شعلہ بیان شاعر اورصحافی تھے۔ انہوں نے اردو میں ترقی پسندوں کی طرح اپنے نظریات کا اظہار کیا۔
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے
شورش کشمیری
غزل
آؤ حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں
زلف عنبر بار کے قصے سنائیں
طرۂ طرار کی باتیں کریں
پھول برسائیں بساط عیش پر
روز وصل یار کی باتیں کریں
نقد جاں لے کر چلیں اس بزم میں
مصر کے بازار کی باتیں کریں
ان کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں
سایۂ دیوار کی باتیں کریں
آخری ساعت شب رخصت کی ہے
آؤ اب تو پیار کی باتیں کریں
غزل
یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
چراغ حسن حسرت
عبداقدوس رسا جاودانی
رسا جاودانی نظم اورغزل دونوں ہی اصناف میں شعر کہنے کی مہارت رکھتے تھے۔ کلاسیکی رنگ میں صوبہ جموں سے چراغ حسن حسرت ،رسا جاودانی اور عابد مناوری کا کوئی جواب ہی نہیں ۔
تیری فرقت میں تجھ سے ملنے تک
تیرے پیغام کا سہارا ہے
اگر آج وہ نہ آتے تو کل آئیں گے ضرور
دیتے فریب دل کو یہ ہم عمر بھر رہے
ہم بن کے تماشا گئے اس کی گلی میں
وہ بہر تماشا بھی لب بام نہ آیا
کسی کا نام کیوں ہو بدنام
چلو ہم کو قضا نے مارڈالا
زلف و عارض کے سب کرشمے ہیں
ورنہ یہ شام کیا سحر کیا ہے
تیرے عارض کے اوصاف کھلنے لگے
پتی پتی گلوں کی زباں ہوگئی
رسا جاودانی
ایک غزل
جو اثر آگ کا ہے پانی پر
وہی دشمن پر مہربانی کا
غنیمت اگر میسر ہو
ایک لمحہ شادمانی کا
ایک جھونکا ہوا کا آ گذرا
کیا یہی عہد تھا جوانی کا ہے
گنجِ بے فیض ریت کا ساگر
جس سے قطرہ ملے نہ پانی کا
وہ کمر بستہ ہیں ستم پہ رسا
حوصلہ مجھ کو سخت جانی کا
رسا جاودانی
تیرے حضور کونسا نذرانہ تھا قبول
دل سا گہر بھی لے میری چشم تر گئی
شفقت تنویر مرزا راجوروی و لاہوری
پھول ہنسنے کو جہاں میں اور ہے رونےکو ابر
کوئی آتش بار کوئی اشک بار آنے کو ہے
منشی صادق علی خاں
مجھے بے طلب زندگی دینے والے
یہ احسان تیرا نہیں دشمنی ہے
غلام حسین بیگ عارف
غنچۂ گل کی حسرتیں، توبہ
جو نسیم سحر سے وا نہ ہوا
کشپ بندھو
لوگوں نے پھول چن لئے طالب بہار میں
میں اس طرف نکل گیا کانٹے جدھر مل گئے
نند لال طالب
منشی نورالدین عنبر مہجور:
عنبر مہجور، متوفی ۱۹۱۲/۱۳،جموں سے تھے لنگیٹ میں نائب تحصیل دار ادھر جوانی میں ہی وفات پا گئے بقول حبیب کیفوی مخزن میں شایع شدہ غزلیں یاردگار ہیں ۔
تھک کے جب بیٹھے کبھی غربت میں ہم
یاد یاران وطن آتے رہے
عنبر مہجور جائیں کیا وطن میں
تھا وطن جن سے وطن جاتے رہے
خط منظوم سے کچھ اشعار
سادہ کاغذ ہے تصور کا مرا
اور قلم ہے شاخ نخل درد کا
روشنائی دود آہِ نارسا
صوف ہھاہا زخم دل کا بن گیا
بادل کا گھِر کے آنا کد کی پہاڑیوں پر
اے کاش وہ نظارہ پھر چشم زار دیکھے
عنبر مہجور
ڈاکٹر عماالدین جموں /میر پور:
غزل حسن سے محفل کو وہ گرما گئے
پھر پسینوں پر پسینے آگئے
سادگی میں حسن کی ہی۔ شوخیاں
دیکھ کر آئینہ وہ شرما گئے
اک نظر ڈالی سکوتِ بزم پر
جاتے جاتے بھی کرم فرما گئے
جلوۂ ہستی طلسم وہم تھا
کچھ نہ ہونے پر بھی دھوکا کھا گئے
نہ زور حوادث پہ کچھ ہمارا ہے
جہاں پہ جا لگی کشتی وہی کنارا ہے
عنبر مہجور
خوشی محمد ناظر
خوشی محمد ناظر گجراتی الاصل تھے لیکن جموں و کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کے سرگرم عہدہ دار رہے بعد گلگت اور لداخ میں کشمنر بندو بست بھی رہے کشمیر میں رہائش کے دورسن نظم جوگی لکھی۔
غزل
یہی گر حسن کا عالم رہے گا
تو زخمِ عشق بے مرہم رہے گا
نہ دے اے ناصحِ مشفق تسلی
کہ جب تک ہم رہیں گے غم رہے گا
غمِ دل دینے والے سچ بتانا
تجھے بھی کیا ہمارا غم رہے گا
تمہاری یاد ہر دم تازہ ہوگی
ہمارے دم میں جب تک دم رہے گا
خوشی محمد ناظر
بقول حبیب کیفوی ناظر بڑے متین و شریف النفس اور کم گو بزرگ تھے جس زمانہ میں انکی شاعری کا چرچا تھالک میں گنے چنے چند ہی نمایاں مقام کے شاعر تھے جن میں ناظر کا بھی نام تھا علامہ اقباک، میر غلام بھیک نیرنگ، اعجاز، جسٹس ہمایوں اور شیخ عبدالقادر سے ان کے گہرے مراسم تھے اقبال نے اپنے چاردوستوں کے نام ان اشعار میں لئے ہیں ۔
اعجاز دیکھ تو سہی یاں کیا سماں ہے آج
نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے رنگ
اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آک
ناظر کمانِ فکر سے مار ایک دو خدنگ
از نغمہ ہائے دل کش این چار یار ما
پنجاب خوش نوا است ہمایوں دیار
خوشی محمد ناظر نے ایک شعر جسٹس ہمایوں کا ذکر یوں کیا ہے:
اس دلربا کو لایا یاں طالع ہمایوں
ہم نقدِ جان و دل کو کیوں ارمغاں نہ کرتے۔
خوشی محمد ناظر
غلام رسول نازکی
میں اس غریب کی مانند دل سے لڑتا ہوں
جو بے کسی میں الجھتا ہے قرض خواہوں سے
پیغام محبت ہے ، اور ان کی زبانی ہے
اب تو دن ڈھلنے لگا سائے بھی لمبے ہوگئے
غلام رسول نازکی
غزل اور نظم بھی کہنا خوب جانتے تھے انکے شعری مجموعہ دیدۂ تر اور متاع فقیر میری نظر سے گزرے ہیں۔ایک اندھی لڑکی کے احساسات کا عمدہ شاعرانہ اظہار کیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ رنگوں کی کئی اقسام ہیں
سرخ ہیں کالے ہیں پیلے اور نیلی فام ہیں
اور ان رنگوں سے وابستہ ہزاروں کام ہیں
مجھ کو کیا؟ یہ آنکھ عالوں کے لئے انعام ہیں
اس دہکتے عزار پر آنسو
شفق شام کا ستارا ہے
غلام رسول نازکی کے کلام کا جائزہ حامدی کشمیری نے اپنی کتاب جموں جموں و کشمیر میں تفصیلاً لیا ہے ۔ یہاں انکے عاشقانہ جذبات اور جمالیات کے دھندلکے ملاحظہ کریں
مرے کشمیر کی ہر شے حسیں ہے
یہاں کی ہر پہاڑی مہ جبیں ہے
فلک پر اس زمیں کی سر زمیں ہے
فلک خود ڈل۔کے اندر تہی نشیں ہے
مانسبل جھیل
اک سہانی چاندنی رات اور مانسبل کی جھیل
حسن کی چپ چاپ دنیا، خلد کا عکس جمیل
دور تا حد نظر سرسوں کے کھیتوں کی قطار
آرزو کا سلسلا لا انتہا فرصت قلیل
مرے نغموں کی موسیقار تم ہو
مرا دیپک مرا ملہار تم ہو
میں فواروں میں کرلوں گا چراغاں
کہ مری شامِ شالامار تم ہو
غلام رسول نازکی نظمیں بہت خوب کہتے ہیں غزل میں کلاسیکی رنگ کی حامل ہیں ۔
بتکدوں کے چراغ جاگ اٹھیں گے
اس بتِ سیم تن کی بات کرو
فارسی میں بھی اشعار کہے ہیں بعض اشعار جن میں انسانی کرب اور بیقراری کا اظہار ہوا مثلا
ہر نفس زیر و بم تار حیات
تا نفس باقی بوَد آرام نیست
دراضطراب صرف نمودم تمام عمر
گاہی بپا ستادہ و گاہی نشستہ ام
غلام رسول نازکی
عابد مناوری
عابد مناوری جموں کے مناور تسی علاقہ سے تعلق رکھتے تھے اور اعلی پایہ کے شاعر تھے انکا کوئی شعری مجموعہ دستیاب نہیں ہوسکا البتہ راجوری میں فاروق مضطر صاحب کی لائبریری سے سے ایک چھوٹا سا کتابچہ ملا جس میں انکی چند غزلیں پڑھنے کو ملیں ۔ عابد مناوری کےکلام
میں بلا کی تاثیر ہے وہ حکیم منظور کے گہرے دوست بھی تھے
زندگی تھک کر بیٹھ گئی
جب تری راہ گزر تک پہنچے
میرے آنگن میں اے قوسِ قزح اک دن اتر
زندگی میں تیرا اک اک رنگ بھرنا ہے مجھے
عابد مناوری کی اک غزل:
آج دل کا عجیب عالم ہے
روح مضطر ہے آنکھ پرنم ہے
پھر کسی آرزو کے مٹنے پر
خانۂ دل میں شور ماتم ہے
غمِ ہستی دیا نوازش کی
یہ نوازش مگر بہت کم ہے
ہم کو اپنا خیال ہو کہ نہ ہو
لیکن انکا خیال پیہم ہے
جلوہ فرما ہے بام پر کوئی
چاند تاروں میں روشنی کم ہے
حق میں ہے گو اک سوال پیچیدہ
عشق بھی اک خیال مبہم ہے
عابد مناوری
کشن سمیلپوری:
کشن سمیل پوری ۱۹۰۱ عیسوی میں جموں میں پیدا ہوئے اردو اور ڈوگری دونوں زبانوں میں عمدہ شاعری کی ہے ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب مطبوعہ گلشن پبلیشرز سری نگر میں حامدی نے انکی شاعری پر ایک مضمون قلمبند کیا کچھ اشعار ملاحظہ کریں
کہیں دیرو کعبہ کے درمیاں کوئی اک حسین مقام تھا
وہاں رقص تھا وہاں جام تھا وہیں جا کے ہم بھی ٹھہر گئے
مری راہ پر پیچ تھی پر خطر تھی
مصائب نے ہر چند مجھ کو ڈرایا
مگر میرا مقصد رہا روبرو ہی
قدم ڈگمگایا نہ میں لڑکھڑایا
نہ زاہد کے مسلک میں کچھ فرق آیا
نہ طور اپنا بدلا کسی برہمن نے
میں لوگوں کی نظروں سے بچتا بچاتا
لئے اپنا ایماں چلے جا رہا ہوں
کل اور، تھاآج اور ہے اس بزم کا دستور
کل اس کو بدل دے گا کوئی صدر نشیں اور
تمام ہوگیا وہ سب گئے گذرے
فنارسیدہ سفینوں کا تذکرہ نہ کرو
کشن سمیل پوری
شہ زور کشمیری:
یہ نام اور بتوں کے کرم پہ تیری نظر
غلامِ قادرِ شہ زور واہ کیا کہنا
میکدے پر سکوت طاری تھا
میں نے ٹکرادیے ہیں پیمانے
تجھے تو حشر میں آخر نقاب الٹنا ہے
جوکام کرنا ہے کل کو وہ آج ہی کرتے
شہ زور کشمیری
ہیں بلند اتنے عزائم ترے دیوانوں کے
خود جنوں سیتا ہے چاک ان کے گریبانوں کے
شمع ہی کو نہیں محفل کو بھی گرماتے ہیں
رات بھر بڑھتے ہوئے حوصلے ارمانوں کے
شہ زور کشمیری
پھر بہار آئی دلوں میں ولولے پیدا ہوئے
دیکھئے کن کن تمناؤں کا ہوجاتا ہے خوں
غلام محمد طاؤس بانہالی
سب کھجوریں کھاکے پھینکیں گھٹلیاں مری طرف
اس ظرافت کا بجلا کیانام ہونا چاہے۔ فروٹی غزل
بھیجے ہیں میرے یار نے خط میں بڑھا کے ریٹ
کیسے ادا کروں میں یہ نازو ادا کےریٹ
ریٹی غزل
یہ چیچک کے فاغوں کی بہار تو دیکھو
رخِ یار کیا گلستاں ہورہا ہے
تم سے چنری تو نہ سنبھلی آج تک
زندگی کیسے سنبھالی جائے گی
ہماری ناک نزلے سے عموماً بند رہتی ہے
ہمیں زلف معطر کی خوشبو نہیں آتی
غلام علی بلبل
کہو شبیر سے میدان میں پھر للجارتا نکلے
یزیدِ عصر ہےتیار خنجر آزمانے کو
تنہا انصاری
بقول حامدی کشمیری
” تیسرے دور کا آغاز ۱۹۴۰ کے بعد ہوتا ہے اس دور میں جو شعرا لکھ رہے ہیں وہ ملک کے نئے شعرا سے منسلک ہیں اور جس طرح نئے شعرا ملکی سطح پر نئے شعرا جدیدیت کے رجحان کے زیر اثر حیات و کائنات کو اک تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ریاستی شعراء بھی فکر و نظر کا ثبوت پیش کر رہے ہیں چنانچہ ان شعراء میں میرے علاوہ حکیم منظور،قاضی غلام محمد، مظفر ایرج، ہمدم کشمیری شبیب رضوی، سلطان الحق مشہدی، عابد مناوری، شجاع سلطان فاروق مضطر، فاروق نازکی پرتپال سنگھ بیتاب محمد یاسین رفیق راز اور دوسرے تیزی سے تخلیق شعر میں مصروف ہیں”۔
میری جانب سیاہ ہاتھ بڑھے
سائے پتوں کے ہو رہے تھے دراز
روکو نہ میرا راستہ سرسبز جنگلو
میں دست و پا شکستہ ہوں پیچھے غنیم ہے
حامدی کشمیر
غلام احمد مہجور( ۱۷۷۵ تا ۱۹۵۲ع)
غالباً ۱۹۳۱ ع میں لدھیانہ میں ایک غزل پڑھی جسکے چند اشعار یہ ہیں ذیادہ تر شاعری کشمیری میں کی لیکن ارددو زبسن پر دسترس رکھتے تھے
دل سے ںہتر ہے کہ انکھوں پہ بٹھائیں انکو
اوج پر ہووے اگر ماہِ تمام اچھا ہے
رُخ اور خال کو مہجور یہ سمجھا میں نے
طائر دل کے پھنسانے کو یہ دام اچھا ہے
غلام احمد مہجور
دِل درد آشنا میرا کسی کا ہم زباں کیوں ہو
عیاں انجام ہو جس کا وہ میری داستاں کیوں ہو
غلام احمد مہجور
مہیند رینہ:
اے دوست تعجب ہوتا ہے ان لوگوں کی بدذوقی پر
کشمیر کے شاعر ہو کر بھی جو نجدوختن کی بات کریں
مہندر رینہ
چھوڑو بھی خزاں کے یہ قصے ،تعمیر چمن کی بات کریں
کچھ لالہ و گل کا ذکر کریں کچھ سرو سمن کی بات کریں
آجائے گا آخر موسم گل، اکسیر بنے گی خاک چمن
ہر شاخ سے نغمے پھوٹیں گے اک ایسے قرن کی بات کریں
مہندر رینہ
اے رہ نورد آبلہ پائی کا ذکر چھوڑ
راہ طلب میں ہمت مرداں کی بات کر
تنگ آگیا ہوں ، حسن وجوانی کے ذکر سے
لِلّلہ اب نہ خواب پریشان کی بات کر
امین کامل
رحمان رحمان راہی
رحمں راہی ۱۹۲۵ عیسوی میں سرینگر میں پیدا ہوئے۔ابھی باحیات ہیں کشمیری اور اردو دوںزبانوں کےاعلیٰ شاعر اور نقاد ہیں۔ انکی نایاں ادبی خدمات بالخصوص نورروز صبا اور سیاہ رود جیران منز( سیاہ بوندا باندی) شعری مجموعوں پر بھارت سرکار نے اعلی اعزازات سے نوازا ۔ابھی باحیات ہیں میرے خیال میں وادی کشمیر سے ادب میں وہ پہلے شخص ہیں جنہیں دوران حیات اسقدر پزیرائی ملی ۔ پدم شری اور گیان یٹھ اوارڈ یافتہ رحمان راہی نے اردو میں کم ہی لکھا لیکن جو بھی لکھا ہے وہ نہایت معیاری ہے۔ انکا ذیادہ کام کشمیری میں ہی ہے اور رحمان راہی کی کچھ اردو غزلیں میری نظر سے گذری ہیں ۔ سادگی و پرکاری ،معنی آفرینی اور بدیع الاسلوبی کے اعتبار سے موجودہ عہد میں شاید ہی انکی ٹکر کا کوئی شاعر ہو
یاد پھر اس شعلہ رو کی آگئی
آگئی اور آگ سی بھڑکا گئی
وہ لچک کر رہ گئی قوسِ قزح
یا کوئی نازک کمر بل کھا گئی
رحمان راہی
دل کی بردبادی کا راہی کچھ نہ پوچھ
کھلتے کھلتے اک کلی مرجھاگئی
رحمان راہی
رحمان راہی کی ان اشعار میں برجسگی اور تازگی ظاہر ہے مجھے کشمیری ذیادہ نہںں آتی۔ ماہ نامہ آجکل نئی دہلی شمارہ جولائی ۲۰۰۷ عیسوی میں ان کے فکر وفن پر اچھا مضمون نظر سے گذرا ہے انکی اک کشمیری کے دواشعار:
یہ کمئ وون اکی ڈنجہ پیٹھ روز دنیا
جنونس چھنا کیہنہ تہِ روز آزماونی
رحمان راہی
یعنی
کون کہتا ہے دنیا ایک ہی راستےپر چلے گی جنوں کو بھی اپنی زور آزمائی کا مظاہرہ کرنا ہے
وُڈر پیٹھ اگر رات لج تَوْ تہ کیاہ گھوو
پگاہ کاروانس چھِ گلزار چھاونی
رحمان راہی
اگر رات بنجر زمیں یا پتھریلے ٹیلے پر بھی کٹے تو کیا غم ہے کل کارواں گل و گلزار کا خوب لطف اٹھائیں گے۔
رحمان راہی کے کچھ اور اشعار
میں بہک گیا تو بہک گئی مری کائنات بھی سر بسر
تھا عجب اثر، تھی عجب کشش تری بہکی بہکی نگاہ میں
وہ افق پہ چھا گئیں، بدلیاں وہ لگا ٹپکنے خمار سا
مرے عزمِ توبہ سلام ہے ، میں چلا گنہ کی پناہ کی پناہ میں
رحمان راہی
یہ بحر کامل میں لکھے گئے اشعار لاجواب ہیں ۔ ان سے اقبال ک جوش بیاں ٹپکتا ہے ۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیازمیں
اقبال
رحمان راہی کے یہاں استعارہ کی تازگی اور اسلوب کا نیاپن دو نمایاں خوبیاں ہی انکے درجۂ امتیاز کا باعث ہیں رحمان راہی نظم بھی خوب لکھتے ہیں انکی بعض نظموں کے ٹکڑوں میں اسرار الحق مجاز کی سی روانی اور مخدوم محی الدین جیسی سلاسلت پائی جاتی ہے شعر
تلخیِ زیست کے اسباب پہ انگلی رکھ دوں
اپنے آقاؤں سے دو چار سوالات کروں
نیز۔۔۔۔۔
کیا تمدن کی حظاظت کے یہی معنی ہیں
علم و آگاہی کے دروازے مقفل ہوجائیں
عبدالقادر سروری نے رحمان راہی کی نظموں کو بہت سراہا لیکن رحمان راہی کے نظمیں انقلابی نوعیت کی ہیں۔
غزل
بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے
فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے
ان ہی تاریکیوں میں آو ہم اگر ڈھونڈیں کرن کوئی
یہ کب تک انتظار آخر کہ شب گذرے سحر آئے
نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے
سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے
نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے
رحمان راہی
آئینہ ہفتہ وار ۱۹۶۶ کے شمارہ ۳۲ اپریل ۱۹۶۶ میں شاعری میں ابہام کے موضع پر رحمان راہی لکھتے ہیں:
” محض ابہام کی بنا پر کسی شعری کارنامے کی قدر و قیمت سے انکار کرنے والے شاید اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ابہام ایک لحاظ سے شاعرانہ عمل ہے۔ نیز لکھتے ہیں
شاعر سیدھے بات نہیں کرتا اس لئے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا وہ ایسا کرے تو تو اپنی مخصوص بات، احساس، خیال، تجربے اور اپنی مخصوص لے کو کماحقہ ادا نہیں کرسکتا اس کا تخیل جس قدر دور رس ہوگا اس کا تجربہ جس قدر اچھوتا اور نرالا ہوگا اسی قدر عام استعمال کی صاف اور واضح منطقی زبان کا ساتھ دینے سے معذور نہ ہوگی”
بحوالہ کشمیر میں اردو جلد سوم ص۹۵
نہ بجھ سکے گا کبھی آندھیوں سے اب یہ چراغ
حیات نے نئی منزل کا پالیا ہے سراغ
گلوں کو مِل ہی گئی آخرش نوید بہار
خزاں کے لاکھ جتن پر بھی لہلہائیں گے باغ
رحمان راہی
قیصر قلندر
زندگی مدتوں سے رہی مضطرب
پردۂ ساز میں نغموں کے جیسے دل
وقت کے جسم ہی میں دھڑکتے رہے
سخت حالات اور نرم لمحوں کے دل
درد کی شمعیں جلتی ہیں ۔ احساس کے نازک سینے میں
اک حسن سا شامل ہوتا ہے پھر تنہاتنہا جینے میں
قیصر قلندر
قیصر قلندر
مہوشانِ چمن کی بات کرو
زیست کے بانکپن کی بات کرو
آج تلخی بہت زیادہ ہے
جام توبہ شکن کی بات کرو
گلعزاروں سے بات کرنے دو
نرگس و نسترن کی بات کرو
فاروق نازکی
دھواں کہیں سے اٹھے میں سوچوں، جلا ہے کوئی چنار میرا
یہ خوف میراث میں ملا ہے یہی ہے اب اعتبار میرا
بکے ہیں کس لئے اخروٹ میرے سنگ کے بھاو
بس ایک بات فقط یہ میں پختہ کار نہ تھا
حکیم منظور