غنی غیورؔ:اردو قلم کار
تحریر وتحقیق:ولی محمد اسیرؔ کشتواڑی

عبدالغنی جاگل نام اور تخلص غنی غیورؔہے۔آپ۱۲؍ اپریل ۱۹۶۲ء کو تحصیل مینڈھر ضلع پونچھ کے گورسانی گائوں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد صاحب کا نام وزیر محمد جاگل تھا اور عطرہ بی بی آپ کی والدہ تھیں ۔ عبدالغنی نے گورنمنٹ ہائر سکنڈری سکول سرنکوٹ (پونچھ) سے میٹرک اور بارہویں جماعت کے امتحانات بالترتیب ۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۱ء میں درجہ اوّل میں پاس کئے ۔ ۱۹۸۵ء میں گورنمنٹ ریجنل انجینئر نگ کالج سرینگر سے سیول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ملازمت کی ۔ بعد ازاں ۱۹۹۲میں محکمہ تعمیرات عامہ میں بطور انجینئر بن کر پونچھ ، راجوری، کرگل ، ڈوڈہ اور اننت ناگ اضلاع میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ بالآخر پی ایم جی ایس وائی ڈویژن بُدھل (راجوری) سے اپریل ۲۰۲۲ء میں سرکاری نوکری سے سبکدوش ہو گئے۔ محکمہ پی ۔ڈبلیو۔ ڈی میں بطور ایگزیکیوٹیو انجینئر آپ کی شاندار کارکردگی کو عوامی اور سرکاری سطح پر سراہا جا رہاہے۔ غیورؔ صاحب کاکہنا ہے کہ :
’’ مجھے کالج کے زمانے سے مطالعہ کا شوق تھا۔انگریزی ادب پڑھتا تھا۔ ۱۹۸۵ء کے بعد میں نے اُردو اور فارسی ادب پڑھنا شروع کیا۔ میرے خیال میں اُردو میں کوئی مشہور شاعر اور فکشن رائٹر ایسا نہیں ہوگا جو میں نے نہ پڑھا ہوگا۔ راشد الخیری و پریم چند سے لیکر کرشن چندر وبلراج مینرا تک سب افسانہ نگاروں کو پڑھا ، کم و بیش یہی معاملہ اُردو شاعری میں بھی در پیش رہا۔ ولی ؔ دکنی سے لے کر ظفر اقبال تک شعراء کے دیوان منگوا کر پڑھے ، تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں ۔ فارسی ادب کو بھی کھنگالنے میں مصروف ہوں روز بہ روز میرا سفر کسی نئی وادی میں ہوتا ہے‘‘۔
ان کی مطبوعہ کتابوں کے نام اس طرح ہیں ۔سروش(۲۰۱۴ء) تن ورق تحریر (۲۰۱۷ء)، حکایت نیم شب ( ۲۰۱۶ء) ، نقش دگر(۲۰۱۸ء) دیر تک(۲۰۱۹ء) محیط بے ساحل ( ۲۰۲۰ء) نئی اردو شاعری ( ۲۰۲۱ء) قلم قلم روشنی( ۲۰۲۲) ،سعدی سخن وقلم (۲۰۲۲ء)، نرگس شہلا( ۲۰۲۳ء)، دستور زبان محلی گوجری( ۲۰۲۳ء)اور آزار جاں (۲۰۲۳ء) عنقریب ہی ان کی چنداور کتابیں بھی شائع ہونے کی امید ہے۔ کتابوں کے عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ غنی غیورؔ شاعر، افسانہ نگار، محقق، مضمون نگاراور نقاد کی حیثیت سی شعر وادب کی نمایاں خدمت کر رہے ہیں ۔
’’ خکایت نیم شب‘‘غنی غیور صاحب کے افسانوں اور کہانیوں کا عمدہ مجموعہ ہے جو ۲۱۰ صفحات پر شائع ہوا ہے۔ انھوں نے اس کا انتساب ہر دلعزیز افسانہ نگار اور اپنے محسن جناب مشرف عالم ذوقی کے نام کیا ہے۔ پہلی ہی نظرادھوری فہرست پر جاتی ہے جس میں آخری کہانی ’’سیلاب زدہ بستیاں‘‘ صفحہ نمبر ۱۲۲ پر دکھائی گئی ہے جبکہ اس کتاب کی آخری فائیکر و فکشن ’’گھورے پر آگے ہوئے پھول‘‘ صفحہ ۲۰۴ پر چھپا ہوا ہے ۔ علاوہ ازیں جگہ جگہ پروف کی غلطیاں قاری کو مضطرب بنا دیتی ہیں ۔ لگتا ہے کہ مصنف نے چھاپنے کے لئے مواد کی روانگی سے پہلے اسے اچھی طرح نہیں دیکھا ہے۔ بہر حال یہ تکنیکی کوتاہیاں کتاب کے حُسن پر کوئی نمایاں منفی اثرات نہیں ڈالتی ہیں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس کتاب کی کتابت چھپائی وغیرہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ موضوعاتی رنگا رنگی غیور کی تحریروں کو خوشنما بنا رہی ہے جن کو پڑھ کر ان کی باریک بینی ، ہوشیار مغزی اور فنکاری کا بھر پور احساس ہوتا ہے۔ اُردو زبان و ادب کے ساتھ انھیں فطری لگاؤ رہا ہے جس کا ٹھوس ثبوت اس مطبوعہ مجموعے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ کتاب کا دیباچہ نعیم بیگ صاحب (لاہور) نے’’مژدۂ بہار‘‘ کے عنوان سے۵ ؍جون؍۲۰۱۶ء کو قلمبند کیا ہے۔ صاحب وصوف نے لکھا ہے کہ :
’’ غنی غیورؔ صاحب کا فنکارانہ شعور گہرا اور مشاہدے کی قوت اتنی سیماب صفت ہے کہ ان کا ادبی وجدان فوراً ہی اُن کے مشاہدات اور فہم و فکر کو داستانوی علامتی روپ میں ڈھال دیتاہے۔ شاید یہی وجہ رہی ہوکہ غنی غیورؔ کے ہاں موضوعات کا متنوع ہونا کوئی اچنبھا نہیں ۔ ان کے حکایتی افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ’’ حکایت نیم شب‘‘ اپنی ادبی روایتوں کا امین ہوتے ہوئے کائنات کی عقدہ کشائی میں جتنا ممدو و معاون نظر آتاہے مجھے اس کا اعتراف بھی کرنا ہے۔ (ص: ۹)
’’حکایت نیم شب‘‘ کے پیش لفظ میں غنی غیور رقمطراز ہیںکہ:
’’ مجھے لکھنے پڑھنے شعر و شاعری کا شوق والد مُشفق سے ملا اور اپنی مہربان والدہ سے سخاوت و رحمدلی ملی۔ میرا تعلق گاؤں کے غریب خاندان سے ہے۔ لیکن میری ہنسی مذاق نے مجھے کبھی غربت کا احساس نہیں ہونے دیا اور اچھے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کوشش کے باوجود اتنا امیر بھی نہیں ہو سکا ہوں کہ اپنی ہنسی مذاق کو روک پاؤں یا مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ لوگ میری زندہ دلی کا ثبوت میری ہنسی مذاق کو سمجھتے ہیں اور میری ہنسی کے شواہد منفرد انداز ِ بیان و مخصوص طرز ِ تحریر کو ۔ مائئگرو فکشن اردو ادب میں نئی نئی وارد ہوئی ہے اگر اس کے بانیوں
مبانیوں کے ساتھ میرے نام کو بھی جوڑا جائے تو جوڑ نا چاہیے تھا۔ سید تحسین گیلانی اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میں پیش پیش رہا ہوں اور آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ یاد رہے مائئگر و فکشن بنیادی طور پر مختصر افسانہ یا شارٹ سٹوری ہے۔اسے آپ ویری شارٹ سٹوری بھی کہہ سکتے ہیں ۔ نقادوں کے مطابق جدید مختصر کہانی کا اُفق ’’دانشوری اور کہانی کا خوبصورت امتزاج‘‘ دریافت ہو چکا ہے ‘‘۔(ص: ۱۴۔۱۵)
پیش نظر مجموعے کی پہلی کہانی ’’مقدم کالو‘‘ طویل ترین ہے جسے پندرہ قسطوں میں لکھا گیاہے۔ ’’کھکھار چوھڑا‘‘ ’’ چلے کش فقیر ‘‘ اور ’’اونٹ‘‘ اور گیدڑ کی کہانی ‘‘ بالترتیب دو اور تین قسطوں میں تحریر ہوئے ہیں ۔ کُل ملا کر ’’حکایت نیم شب‘‘ میں ۲۳ کہانیاں ، افسانے، اور مائئگروف فکشن پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں ۔ہر تحریر گہرے مطالعے کا تقاضا کرتی ہے اور بعض اوقات تخلیق کار کی بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے دماغ بھی دوڑانا پڑتا ہے۔ زنانہ تکرار، گھورے پر اکے ہوئے پھول، بچے دیواروں پر چلتے ہیں ، کاکروچ، خوفناک آوازیں ، رات اور بھوت ، مامتا، فرط محبت و امومت، سُرخ سوالیہ نشان اور رات اور بھوت اس مجموعے میں شامل مائئکروف و یا خاص مائکرو فکشن ہیں جبکہ مقدمہ کالو، چاندنی، ائیر بڈز، پچھلا حساب، شربتی کی روح ، دو مغرور لڑکے ، سرمد کا قتل ، صوفی کی موت ، پنجرے کا قیدی،سائیں نیلا اور سیلاب زدہ بستیاں ’’ حکایت نیم شب‘‘ کی کہانیاں اور افسانے ہیں ۔ مقدم کالو،کھکھا چوھڑا، چلے کش فقیراور ریچھ کا بچہ ، بلی کا اشتہار اور اعلان حج اور اونٹ اور گیدڑ کی کہانی ‘‘ اس مجموعے کی طویل ترین کہانیاں ہیں جن کا تخلیق کار کی زبان وبیان پر مکمل گرفت اور فکشن نگاری کے ہُنر قاری کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں ۔ ’’سیکنڈ ڈویژن ‘‘ افسانے کو مختصر افسانے کے زمرے میں رکھاگیا ہے ۔ان کہانیوں ، افسانوں ، مختصر افسانوں اور مائیگرو فکشن کو قلمبند کرتے کرتے فکشن نگارہے اور زبردست عرق ریزی کی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتا ہے ۔ اُن کی محنت رنگ لائی اور برصغیرکے چند برگزیدہ قلمکاروں نے ان کی تحریروں کو سرہاتے ہوئے کچھ اس طرح زبان قلم کو وا کیا ہے۔
’’نہ یہ افسانچے ہیں نہ مائئکرو فکشن۔ یہ زندگی کی لہروں پرہچکولے کھاتے جگمگاتے شکارے ہیں ‘‘۔ (مشرف عالم ذوقی)
’’آوارہ گدھا اور مقدس بیل ‘‘ عمدہ کہانی ہے ، حیوانی و انسانی نفسیات کا موازنہ کامیابی سے کیا اور وہ بھی کمال روانی سے‘‘۔(ڈاکٹر افتخار الحق ۔لاہور)
’’چلے کش فقیر اور رہچھ کا بچہ‘‘ خوبصورت علامتی افسانہ ہے‘‘۔ ( بشری خاتون لاہور)
’’ بلی اور چوہوں کی علامت میں مصنف نے عصری علاقائی جبر و استبداد اورمظالم پر جو تصویر کھینچی ہے وہ قابل ستائش ہے‘‘۔ (نعیم بیگ لاہور)
’’حکایت نیم شب‘‘ کے افسانوں اور کہانیوں میں رومانی عنصر نہ ہونے کے برابر ہے تا ہم طنز و مزاح ان کی روح ہے۔ افسانہ نگار خود لب بستہ رہ کر اوروں کو ہنسانے کا خوب ہُنر رکھتا ہے۔ جانوروں کی نفسیات کی بات کرتے کرتے انسانی نفسیات تک پہنچ جاتا ہے ۔ طرز تحریر منفرد اور اچھا ہے۔ اختصار اُن کو کافی محبوب ہے اور ان گنتی کے چند افسانوں میں اُس نے حقیقی زندگی اور چلتے پھرتے انسانوں کے ان گنت راز ملفوف انداز میں کھولنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ قدرتی مناظر چرند پرند ، حیوانات اور زمین پر آئے روز برپا ہونے والے ہنگامے انھیں کافی پسند ہیں ، وہ یہ زبان جانوروں اور پرندوں کی بات بتاتے ہوئے عصری رنگ و روپ پیش کرنے میں دلچسپی لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ مائئکرو فکشن میں غنی غیور ؔ کی فنکاری کے تقریباً سبھی اوصاف نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ یہ سیماب صفت تخلیق کار ایک کام کو مکمل کرنے کے ساتھ ہی دوسرے کام کو ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اُن کے خیالات میں پختگی اور تحریر میں خوبصورتی آرہی ہے ۔
بات کو سمیٹے ہوئے ہم ’’حکایت نیم شب‘‘کی تخلیقات سے لئے گئے مندرجہ ذیل اقتباسات پر نظر ڈال کر دیکھ لیں گے کہ غنی غیورؔ کس طرح اپنا مافی الضمیر صفحہ قرطاس پر پیش کرتے ہیں :
’’ مقدم کالو بڑے ہی خاص شخصیت کے مالک تھے ۔ بڑے متین سنجیدہ قرآن و سنت کے پابند تھے۔ وہ عمدہ قسم کے لباس پہن کر اللہ کی وسیع نعمتوں کا اعلان کرنے میں مشغول رہتے تھے ۔ ان کی جین کی چستی لڑکیوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی۔ ان کی لمبی داڑھی پر میں نے کئی نظمیں لکھیں لیکن پکے اہل حدیث ہیں داڑھی کو قینچی نہیں لگاتے۔ اُن دنوں اُن کی داڑھی اُن کی ناف سے ہوتے ہوئے براستہء خاص گھنٹوں تک چلی جایا کرتی تھی‘‘۔(کالو مقدم ۔ ص: ۱۸)
’’ لیاقت کئی سال نازیہ کی چکر میں پڑا رہا لیکن پھر سالہاسال پانی میں پڑے رہنے کے باوجود نرم نہیں ہوتا، نازیہ بھی امیری کے نشہ میں رہی اور وہ لیاقت کی محبت اور ذہانت سے ذرا بھر متاثر نہ ہوئی اور آخر کار غریب جان کر اسے مسترد ہی کر دیا۔ لیاقت نے جیسا کیا ویسا ہی پایا ۔ لیاقت کو دوبارہ پٹری پر چڑھنے میں کئی سال لگ گئے ۔ جب اس کا ہوش ٹھکانے پر آیا تو اُسے نازیہ کا خیال آیا لیکن بہہ چکا وقت کا دریا کبھی پیچھے نہیں مُڑتا۔ اب نازیہ کسی حویلی کی زینت بن چکی تھی اور دو تین بچوں کی ماں ۔ بیچارے شکستہ دل بے روز گار لیاقت کے پاس صرف حسرتوں کی ایک بڑی پوٹلی کے علاوہ ایک ڈگری تھی وہ بھی سیکنڈ ڈویژن میں ‘‘۔(ص: ۸۶۔ ۸۷)
’’ انسانی معاشرے کو ذات پات نے زبردست نقصان پہنچا یا ہے۔ ہندوستانی سماج میں منوسمرتی کے مطابق سماج چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن برہمن کو برہماکے منہ سے ، کھشتری کو بازو سے ، ویش کو پیٹ سے اورشودرا کو چرنوں یعنی پاؤں سے۔ اس ذات پات نو کے نظام نے ہزاروں سال انسانیت کی دھجیاں اُڑائیں ‘‘۔ (کھکھا چوھڑا۔ ص: ۷۸)
’’گلیاں سڑکیں اور کھلی جگہیں جھیل کی طرح بن گئی تھیں ۔ اسی اثنا میں مُسلح اشخاص کشتیوں میں بیٹھے ہوئے نمودار ہوئے۔ لاگ امداد اور نجات کے لئے چیخنے لگے لیکن جہاں کہیں سے ان کی آواز آئی تھی وہاں ٹھس کی آواز آتے ہی ارد گرد کا پانی تھوڑی دیر کے لئے لال سُرخ ہو جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ چیخ و پکار فریاد اور امداد طلب کرنے والی آوازیں بند ہو چکی تھیں اور جہلم کے مٹیالے پانی میں انسانوں کے خون کا رنگ و ذایقہ شا مل ہو چکا تھا‘‘۔ (سیلاب زدہ بستیاں ۔ص ۱۳۰)
’’ میں نے کتے اور گدھوں کے سروں والی ٹرے یوں کا پیچھا کیا… اور دیکھا کہ ایک بڑے تھیٹر میں بیک وقت کئی لیڈروں کی کھوپڑیاں کھولی گئی تھیں ساتھ ہی ساتھ کتوں اور گدھوں کی کھوپڑیوں سے مغزوں کو نکال کر مہارت سے ان میں منتقل کئے جا رہے تھے ۔ اُس دن سے لیکر اس دن تک مسلسل شاہی ایوانوں میں بھوں بھوں اور ڈھینچوں ڈھینچوں کی خوفناک آواز یں سُنائی دیتی ہیں ‘‘۔ (خوفناک آوازیں ۔ص: ۱۱۹۔۲۰۰)
’’ گویا ہر پھیلنے والی وبا ایک دن اپنے ہدف کو چھوڑ کریا ساتھ لیکر ختم ہو جاتی ہے لیکن ایک زنانہ بحث و تکرار ہے جو کوئی بھی موسم ہو کبھی ختم نہیں ہوتی‘‘۔ ( زنانہ تکرار۔ص:۲۰۳)
مجموعی طور پر ’’حکایت نیم شب‘‘ پڑھنے کے لائق کتاب ہے جس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کی غنی غیورؔ ایک سنجیدہ اور چاک و چوبند افسانہ نگار اورکہانی کار ہیں ۔ انھیں اپنے اندر موجود ساری صلاحیتوں کو بروئے کارلاکر مزید افسانے اور کہانیاں لکھنے کا مخلصانہ مشورہ ہے۔

’’ سروش‘‘ غنی غیور ؔ کا ایک ہاڑد بونڈ عمدہ ضخیم شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۱۴ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا ، ۱۹۰ صفحوں پر چھپے ہوئے اس مجموعے کا بیک پیج شیخ خالد کرارنے تحریر کیا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ:
’’ غنی غیورؔ کی غزل فکر کی گہرائی کے علاوہ تصوف اور فلسفہ کی رنگ آمیزی سے عبارت ہے۔ ان کی غزل میں کائنات ایک دریچہ ہے جس سے حرف ، قوافی اور قواعد کے ساتھ جھانکتے ہیں ۔ ان کے یہاں عشق و آگہی کے مضامین روایت سے قطعی مختلف انداز میں اختراع ہوئے ہیں ‘‘۔ دیباچہ رفیع رضاؔ نے لکھا ہے جو کینیڈا میں مقیم ہیں ۔ رضاؔ نے اپنے مفصل تاثرات کے بجائے غیورؔ کے کئی شعری نمونے دیتے ہوئے بتایا ہے کہ:

’’” غنی غیورؔ کی شاعری میں مجھے امید نظر آتی ہے کہ وہ بالآخر جگالی زدہ شاعری سے پرے اپنا راستہ چُنیں گے۔ میں ہمیشہ کہتاہوں کہ شعریت کے بٖغیر لفظی و عروضی وزن پورا کر دینے سے کوئی شاعری نہیں مگر بدقسمتی سے ۹۹ فیصد اردوشا عری محض وزن پورا دینے والی شاعری ہوتی ہے۔ غنی غیورؔ کو اپنے لہجے کی جدّت کا احساس ہے۔ ان کے یہاں دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ اُن کا لہجہ گجرات کے ظفر اقبال یعنی عادلؔ منصوری سے ملتا جلتاہے۔ گویا ظفر اقبال ؔ ، عادل منصوریؔ اور غنی غیورؔ کی
تکون مکمل ہو گئی ہے‘‘۔ (ص : ۸۔۱۰)

سروش میں ۲ دعا ایک مناجات ۲ نعت ۱۲۵ غزلیں ۱۰ نظمیں ۱۸ قطعات ۹ فردیات اور ۱۲ متفرقات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہےکہ
شاعرنے اُردو شاعری کے تقریباً سارے اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ کتاب میں شامل تخلیقات کو دیکھ کر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ غنی غیورؔ افسانہ نگاری کے مقابلے میں شعر و شاعری کی کافی خدمت کر رہے ہیں ۔ اگرچہ ’’سروش‘‘ ان کی ابتدائی شاعری کا ہی مجموعہ ہے تا ہم اس میں موجود کلام سے یہ اندازہ لگایا جانا آسان ہے کہ وہ شاعری کے میدان میں ایک ممتاز و معتبر شاعر بننے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں ۔ روایت کی پاسدار ی کرتے ہوئے وہ ما بعد جدید اُردو شاعری سے بھی متاثر ہیں جو اُن کے شاعر انہ لب و لہجے سے ظاہر ہے۔
غنی غیورؔ بھی دیگر عام شعراء کی طرح ہی زیادہ تر غزل کے عاشق ہیں۔ وہ اس اپنی محبوب صنف سخن کا لسانی ، معنوی ، اصطلاحی اور ترکیباتی اعتبار سے کوخوبصورت سے خوبصورت ترین بنانے کی حتیٰ الوسع کوشش کر رہے ہیں ۔ ان غزلوں میں روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج موجود ہے۔ انھوں نے فارسی جانتے ہوئے بھی فارسی کے بھاری اور غیرمناسب الفاظ و اصطلاحات کو برتنے سے ہر ممکنہ احتراز کیاہے۔ موضوعی اعتبار سے یہ غزلیں رنگین و پُر اثر ہیں ۔ کبھی کبھی اُن غزلوں میں آپ بیتی ، جگ بیتی اور حسب حال ایک جگہ جمع ہو کر ان کے اشعار کو خوبصورت اور خوشنما بناتے ہیں۔ مظلموں ، محکوموں ، غم زدوں اور بے کسوں کی صورت حال دیکھ کر وہ سیخ بہ پا ہو جاتے ہیں اور طنز و مزاح کا لہجہ اختیار کر کے وہ بڑی تڑپانے والی باتیں کرتے ہیں ۔ ان کی غزلوں سے لئے گئے درج ذیل شعروں میں ان کی غزلوں کی ما ہیئت ، اثر آفرینی اور مقبولیت عیاں ہو جاتی ہے جو قابل غور ہے ؎

یہی جاگیر ہے فقیروں کی
باعثِ فخر و صد غرور ہے عشق

ہم بھی ٹھہرے قصوروار غنیؔ
عشق پیشہ ہیں اور قصور ہے عشق

بہہ رہا ہے امان و امن کا خوں
کیوں یہاں کوئی مہرباں روتا

سارے پنچھی چلے کسی جانب
صبحِ ویراں پہ بھی سماں روتا

اس کو بیساکھیوں پہ فخر تھا کاش
اپنی ٹانگوں پہ وہ چلا ہوتا

ملی ہوتی نجات اس کو بھی
ذات حق میں اگر فنا ہوتا

رات دن محو ہیں تلاوت میں
رُخ ترا بھی کوئی کتاب ہوا؟

میرؔ صاحب بھی کھا گئے دھوکہ
اُن لبوں سا کہاں گلاب ہوا؟

رُخ پہ اُس کے وہ بکھرنا زلف کا
ایک مدت ہو گئی دیکھے ہوئے

اُون مشکل کاتنی تھی عشق کی
مشکلوں سے معتبر دھاگے ہوئے

آدمی سب کے سب برابر تھے
کس لئے امتیاز کرتے رہے

لوگ سُن کر کہاں تھے راضی
شعر نذرِ بیاض کرتے رہے

جامہ تھا وہ غریب لڑکی کا
سی رہی وہ اُدھڑ گیا دیکھو

کھوکھلے پیڑ کا بھروسہ کیا
یہ جڑوں سے اُکھڑ گیا دیکھو

کنبہ اک ہی تو تھا بنی آدم
اُن کے پھر خاندان تھے کیا کیا

غنی غیورؔ کی غزلوں میں تصوف کا رنگ بھی خوب جھلکتا ہے۔ موحد و مومن تو ہیں ہی حُبِ اولیاء اور رغبت ِ تصوف سونے پر
سہاگہ کا کام کر گئے ہیں ۔اس ضمن میں ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎

پتھروں کی بارش ہوتی رہی کس لئے
زندہ ہے زندہ رہے گا بھی مرتا نہیں

سر بلندی ہو گئی ان کو نصیب
جاگتے رہتے تھے جو راتوں میں لوگ

رات دیکھی نہ دن قلندر نے
نا مرادوں کو با مُراد کیا

نام ہو جائے گا ترا نابود
مت اُلجھنا قلندروں سے دیکھ

غنی غیورؔ کے شامل کتاب قطعات میں کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے قطعے شامل ہوئے ہیں جو فنی موضوعی اور معنوی اعتبار سے
شاعرکی خوش بیانی کے اچھے نمونے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ قطعات ؎

میرے ماں باپ آسرا میرا
کم تھا لوگوں سے رابطہ میرا

ہم جو خانہ بدوش کنبے ہوئے
کب ٹھکانہ تھا اک جگہ میرا

گرمیوں میں پہاڑ پر ڈیرا
سردیوںمیں نشیب تھا میرا

چائے کی پیالی روٹیاں اک دو
مل ہی جاتا تھا ناشتا میرا

میرا اسکول بھی ’’مُبائل تھا
در بدر وہ ، قبیلہ تھا میرا

کوئی تاریخ کے ورق پلٹے
کوئی کربل کا واقعہ دیکھے

حق کی آواز کی بلند، کوئی
ابن ِ حیدر ؓ کا مرتبہ دیکھے

تجھے دل بے تحاشہ چاہتا ہے
تعلق یہ بنانا چاہتا ہے

کوئی جاتا نہیں تفصیل میں اب
جسے دیکھو خلاصہ چاہتا ہے

’’ سروش‘‘ کی ایک نظم کافی دلکشی کا باعث بنتی ہے جو اس طرح ہے ؎

بہت نم دار ساون کا مہینہ
بدن سے اس کے بہتا تھا پسینہ

ڈھلی چھاؤں وہ بچی پھر وہیں تھی
میسر اس کو چھتری نہیں تھی

مِری آنکھوں میں ہے اب تک وہ منظر
وہ ننھی بچی وہ گرمی ، وہ پتھر

کوئی اس کا وسیلہ کچھ نہیں کیا
کسی کا بھی فریضہ کچھ نہیں کیا

وہ چہرہ پھول کی مانند کھلتا
اُسے پرُسانِ حالِ زار ملتا

اس نظم کی طرح ہی مزدور (ایک منظر) اورپِیشہ ور بھی بڑی پُر اثر نظمیں ہیں۔ جن کی بنا پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیورٓ
نظم نگاری کی جانب بھی اگر تھوڑی اور توجہ دیتے تو وہ اچھے نظم نگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ غیورؔ کے عقیدتی اشعار بھی کسی طرح کم نہیں ہیں مثلاً یہ شعر ؎

شمع غم کی جلتی رہے
روشنی دل کی بڑھتی رہے

سبز ہوں ذہن کی کھتیاں
علم کی مینہ برستی رہے

فکر کی دھوپ ہو بارہ ماہ
شعر کی فصل پکتی رہے

بھائی چارہ ، محبت بھی ہو
رشکِ فردوس دھرتی رہے۔

اُن کا ثانی ما سوا اُن کے نہیں
کب خلیل ؑ ان سا ہوا یا پھر کلیم ؑ

جس نے دیکھا ان کو دیکھا خوب تھا
اُن کا اسُوہ ، اسوۃ ٔربّ ِ کریم

اپنا ہی عکس اُس کے تھا پیشِ نظر
ورنہ کب انساں ہوا اُن سا فہیم

مجموعی طور پر غنی غیور کا مجموعہ کلام ’’سروش‘‘ اُن کے تابناک شعری مستقبل کا آئینہ دار ہے ۔ اس پہلے ہی شعری مجموعہ
میں چونکانے والے شعر جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔ مثلاً ؎

اپنی بیٹی پہ مجھ کو بڑا فخر ہے
جانے کیا گُل کھلائے گا بیٹا میرا

کامیابی کی شرط ہے اخلاص
کام اخلاص کے بغیر نہ کر

’’قلم قلم روشنی ‘‘ غنی غیورؔ کا دسرا شعری مجموعہ ہے جو سال ۲۰۲۲ء میں اشاعت پذیر ہوا ہے ۔ ایک سو بارہ صفحات پر پھیلے ہوئے اس مجموعہ کلام میں ۹۵ غزلیات اور پندرہمتفرقات شامل ہیں ۔ یہ مجموعہ پیپر بیک ہے اور اس کا بیک پیج لاہور کے ظفر اقبال ؔصاحب نے قلمبند کیا ہے۔ صاحب موصوف نے لکھا ہے کہ:
’’ جدید شاعروں کے یہاں تنہائی ایک مرکزی تصور رہاہے ۔ غنی غیور کے یہاں یہ صورت اور بھی شدید ہو کر سامنے آتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جس طرح جدید شعراء نے وجودی فکر سے رشتہ جوڑتے ہوئے تنہائی کو مرکزیت دے دی وہ اسی نہج پر غنی غیور کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔ موضوعات کی یکسانی کے باوجود غنی غیورؔ بہتوں سے الگ قسم کے شاعر نظر آتے ہیں اور یہ امتیاز بے حد اہم ہے‘‘۔
ان تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ غیورؔ نے اپنی شاعری کی بدولت ہند و پاک میں اچھا نام کمایا ہے اور وہ اپنی شناخت بنانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں ۔ ’’ قلم قلم روشنی‘‘ کے ابتدائی صفحوں پر حسب روایت کوئی بھی دیباچہ یا اپنی بات وغیرہ دستیا ب نہیں ہے۔ کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے تمام دوستوں ‘‘ کے نام کرتے ہوئے اپنی وسیع القلبی اوراپنے دلی خلوص کا کھلا اظہار کیاہے ؎

سمندر کے شکم سے ہم نے لائے قیمتی موتی
کسے جائیں تھما کر، تم بھی سوچو ہم بھی سوچیں گے

’’ قلم قلم روشنی‘‘ کی غزل بھی ’’سروش‘‘ کی غزلوںکی طرح عمدہ اور دلکش ہیں ۔ یہ غزلیں زیادہ سے پانچ سے سات اشعار پر مشتمل ہیں۔ البتہ غیورؔ نے فارسی ترکیبوں کا جی بھر کر استعمال کیا ہے۔ تا ہم اس استعمال کی وجہ سے ان غزلوں میں موجود شعریت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا۔ ان غزلوں میں بھی سماج کے کمزور طبقوں اور عام غریبوں کی باتیں اُبھاری گئی ہیں ۔ کہیں ساقی جام اور میخانہ کی یادیں تازہ ہوئی ہیں ۔ عشق و محبت کی گھتیوں کو بھی کافی حد سے سلجھا ئے جانے کی کاوشیں ہوئی ہیں۔زمینی اور آسمانی صورت حال کی بھی اچھی عکاسی ہوئی ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ شاعرنے اپنے من کی بات دلپذیر پیرائے میں بیان کی ہے ۔ جدید شاعری کے وہ دلدادہ ہی نہیں بلکہ خدمت گار بھی ہیں ۔ زبان سادہ، عام فہم اور فصیح ہے۔ لگاتار مشق سخن کرنے کے نتیجے میں غیورؔ صاحب کے کلام میں روز بروز لطافت پیدا ہو رہی ہے ۔ ان ہی چند باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اپنے آپ کو یہ کہنے میں حق بجانب تصور کرتاہوں کی ’’ قلم قلم روشنی‘‘ میں شامل کیا گیا کلام گیرائی اور گہرائی کے اعتبار سے ’’ سروش‘‘ میں دئے گئے کلام سے قدرے بہترہے۔ مندرجہ ذیل اشعار کو پڑھکر آپ خودبخود تقابلی مطالعہ کر سکتے ہیں ؎

رہ گئی اپنی جگہ پر جھونپڑی
پختہ گھر تھا زلزلہ میں ڈھ گیا

پیڑ پیکر سخاوت کا غنیؔ
زخم کھا کے درد اکثر سہہ گیا

نلوں میں پانی نہیں انتظار کرنا تھا
تمہیں تو اپنے گھڑوں سے ہی پیار کرنا تھا

اگر چہ عشق میں گھاٹا بہت ہوا ہم کو
یہ پُل صراط بہر حال پار کرنا تھا

’’موم جامے‘‘ پگھل گئے رشتے
ہاتھ سے پھر نکل گئے رشتے

اک ذرا آنچ کیا لگی اُن کو
ہو گئے ڈھیر جل گئے رشتے

اس کو غزلیں سُنا رہا تھا
اور وہ لے رہی جماہی تھی

پاس اس کے ثبوت سارے تھے
ایک میں اور بے گناہی تھی

پھلانگتے ہیں پرند ے بھی سرحدوں کو ابھی
کھلے ہیں’ویزے‘بھی رہ داریوں کا موسم ہے

کئی دنوں سے ہوئے قید میں گھروں میں ہم
ہمارے شہر میں بیماریوں کا موسم ہے

آخری دور ہے یہی شاید
آدمی آدمی کو ڈستا ہے

آج کپڑا ہوا بہت مہنگا
آدمی کپڑے سے تو سستا ہے

دل دریچہ کُھلا رکھامیں نے
ادھر آئے کوئی حسیں شاید

چل رہا ہوں بدل بدل کے راہ
مل ہی جائے گا وہ کہیں شاید

قبر میں بے خبر پڑا مُردہ
ہم سے تو رابطے نہیں ہوتے

شہر میں جنگ کی سی حالت ہے
جنگ میں ضابطے نہیں ہوتے

خستہ چھت ہے پرانی دیواریں
خیر ہو یا خدا مکینوں کی

جب سے کم ہو گئی ہے پیداوار
بڑھ گئی قیمتیں زمینوں کی

’’ محیط بے ساحل‘‘ غنی غیور کی ایک ایسی تالیف ہے جس کو پڑھ کر اُن کی ادب شناسی ، ترجمہ نگاری، تنقید نگاری اور تحقیق سے گہری دلچسپی کا راز کھل جاتا ہے۔اس ہارڈ بونڈ اور ۱۷۱ صفحات والی کتاب کا بیک پیج عمر فرحت نے قلمبند کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ میں اس بات کا عینی گواہ ہوں کہ پچھلے آٹھ دس سال سے غنی غیورؔ بیدلؔ کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ وہ وقتاً فوقتاً بیدل ؔکے اشعار پر گفتگو کے علاوہ مضامین بھی سپرد قلم کرتے رہے ہیں ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ غنی غیورؔ نے ان بکھرے پڑے مضامین کو توضیح اور تضحیح کے بعد کتابی شکل دی ہے۔ زیر نظر کتاب میں بیدلؔ کے سینکڑوں اشعار کے تراجم نہایت سلیس اور ادبی زبان میں پیش کئے گئے ہیں ۔ یقینا اس کتاب کا مطالعہ بیدلؔ شناسی میں اہم اضافے کی اہمیت رکھتا ہیں‘‘۔ ’’کتابیات پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ غنی غیورؔ نے زیر بحث کتاب کو مرتب کرنے میں ۳۳ کتابوں سے براہ راست مدد ملی ہے۔ ابتدا ئی صفحات پر مولف کا تحریر کردہ بصیرت وبصارت افروز مقدمہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ جس میں یہ کتاب لکھنے کی غرض و غایت اور اہمیت کو ادبیانہ انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ فارسی غیورؔ کا ااختیار ی یا نصابی زبان نہ ہونے کے باوجود اُن کی دلچسپی کا موجب رہی ہے جس کو سیکھنے کے لئے انھیں سالہاسال محنت شاقہ سے کام لینا پڑا۔ اس لئے انھوں نے فارسی شعروں کے تراجم اور تشریحات درج کر کے اپنی فارسی دانی اور شعر شناسی کا ثبوت دیا ہے۔ اپنی کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ :

’’امید ہے کہ میری کاوش قارئین کو پسند آئے گی اور بیدلؔ کی تفہیم آسان بنائے گی۔‘‘(مقدمی۔ ص : ۱۶)
’’محیط بے ساحل‘‘ کی اس کتا ب کے مولف نے اسے بیدلؔ شخصیت اور فن ، بیدلؔ ہندوستانی روایت کا شاعر، بیدل ؔ بحیثیت فطرت نگار، تراکیب و اصطلاحاتِ بیدلؔ،شراح اصلاحات بیدلؔ ، بیدل ؔ و غالبؔ، مماثلت کے پہلو ، تجدّ د امثال، بیدلؔ کے استعارے ، بیدلؔ محیط بے ساحل ، بیدلؔ برگسیاں اور اقبالؔ، بیدلؔ اور اقبالؔ اور بیدلؔ ، بیدل کا حرکی نظریہ ،بیدل کا استعجاب و حیرت کا شاعر، کلام بیدلؔ میں ضائع و بدائع ، منتخب رباعیات بیدل ؔ، بیدل کی قطعہ نگاری، بیدل ؔ کی منتخب غزلیات مع ترجمہ اور بیدل ؔ کے منتخب اشعار مع ترجمہ کے اٹھارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ اس طرح سے ثابت ہوتا ہے کہ غنی غیورؔ نے بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے میرز ا بیدلؔ کی شخصیت اور شاعری کے کئی اہم پہلوئوں کا تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ پیش کر کے بڑا ادبی معرکہ سر کر لیاہے۔ آج کے دور میں فارسی شاعری کو ایک نئے رنگ میں پیش کر نے کا یہ کام سراہاہے جانے کے لائق ہے۔ کتاب سے لئے گئے یہ اقتباسات چشم کشائی نہیں انتہائی ذہانت کے آئینہ داربھی ہیں:
’’ بیدلؔ کی شاعری وسیع اقلیم ہے جس میں اونچے پہاڑ ہیں ، بے آب و گیاہ بیابان سر سبز وادیاں ، موجزن آبجُوئیں ، الغرض گو نا گوں چیزیں نظر آتی ہیں‘‘۔ (ص: ۸)بیدلؔ ہندوستان کے اہم ترین فارسی شاعر ہوئے ہیںاور سبک ہندی کے امام ، پٹنہ عظیم آباد میں میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے آباءو اجداد کا تعلق ترکوں کے آرلاس قبیلہ سے تھا۔ ان کے والد سپہ گری سے وابستہ تھے بیدل ؔ مختلف مقامات پر ٹھکانے بدلتے رہے۔ بالآخر دہلی میں ہی وفات پائی اور اپنے رہائشی مکان میں دفن ہوئے‘‘( ص: ۱۹)
’’اقبالؔ کے یہاں مزدور دنیا کا ذکر بیدل سے ملتا جلتا ہے البتہ بیدل ؔ نے اسے پُرپیچ اسلوب میں پیش کیاہے جبکہ ا قبالؔکے یہاں سطحی بیانیہ کا زور و اجبار ہے اور جذبات کا شور و شغب‘‘۔(ص: ۲۲)
’’ بیدل اپنی زبان کے خالق بھی ہیں اور موجد بھی ۔ انھوں نے اپنے کلام میں بیشمار انوکھی تراکیب و اصطلاحات استعمال کی ہیں ۔ بیدلؔ برہنہ گوئی اور سہل نگاری کے بجائے معمائی لہجہ اور مشکل پسندی کے علمبر دار ہیں ‘‘۔(ص: ۳۵)
’’بیدل کی شاعر ی دشتِ حیرت ہے ۔ اس میں تجلیات کی بارش ہوتی ہے ہر لحظہ میں شواہد اور نقوش شکلیں اور رنگتیں بدلتے ہیں اور ہماری حیرت میں اضافہ کرتی ہے۔ بیدلؔ کے جہاں میں ہر ذرہ محوِ دُعا ہے‘‘۔(ص: ۱۱۹)
’’آزار جان‘‘ غنی غیور کی تازہ ترین تالیف ہے جو سال رواں کی ابتداء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۲ صفحوں پر چھپی ہوئی اس پیپر بیک کتاب میں انھوں نے کافی تحقیق کر کے حکیم منظور ؔ کی ایک سو ایک غزلیات جمع کی ہیں ۔ جنھیں ایک پُر مغز مقدمہ کے ساتھ شامل کتاب کیا گیا ہے۔ حکیم منظورؔ مرحوم جموں و کشمیر کے ایک معتبر و مقبول شاعر ہو گزرے ہیں ۔غیورؔ نے اُن کی غزلوں کا یہ نایاب مجموعہ زیور طبع سے آراستہ کر کے ایک اور اہم ادبی کام کیاہے جسے بجا طور پر مرحوم پروفیسر حامدی کاشمیری کے نام منسوب کر کے ایک تیر سے دو نشانے مارنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے جموں و کشمیر میں اُردو شاعری کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے غنی غیورؔ رقمطراز ہیں:

’’ حکیم منظور پہلا روایت شکن اور کشمیر کا مقیمی شاعر ہے جس نے اُردو شاعری میں نئے تجربے کئے۔ اُن کی شاعری تازگی سے بھر پور اور نئے انداز سے معنی آفرینی کی حامل ہے۔حکیم منظور کے پاس ارضی عنصر نمایاں ہے حکیم منظور مخدوم محلہ زینہ کدل (سرینگر) کے حکیم علی محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ حکیم محمد علی شادی کے بعد گوجوارہ میں منتقل ہو گئے۔ طبابت پیشہ سے وابستہ تھے اسی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ حکیم لگا ہے۔ حکیم منظور کی والدہ کا نام صدیقہ بیگم تھا۔ حکیم منظور نے ۱۹۵۷ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کی اور لور گریڈ کلرک کی حیثیت سے سرکاری ملازم ہوگئے۔ ذہانت اور محنت کی بدولت پرموشن پر پرموشن ملتی گئی۔ کچھ عرصہ بعد کسٹوڈین اور ڈپٹی کمشنر بنے اور بعد ازاں سیکرٹری بھی رہے اور اسی عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ انھوں نے ۱۹۶۴ء میں شاعری کرنا شروع کی ۔ ۱۹۷۷ء سے۱۹۹۸ء تک اُن کی ۱۳ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے پھول شفق، آنگن اور برف آفتاب نظموں اور آٹھ مجموعے غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان کی رباعیات کا مجموعہ ’’ چہار ضرب‘‘ ان کی وفات کے بعد ۲۰۰۹ عیسوی میںبا اہتمام آفاق منظور شائع ہوا ہے‘‘۔ حکیم منظور ذیابطیس کے مریض تھے ۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ ء کو اپنی رہائش گاہ گوڑ گائوں (ہریانہ) وفات پاگئے۔ دوسرے دن ان کے جسد خاکی کو سرینگر لایا گیا اور آبائی مقبرے واقع بہائالدین میں دفن کر دیا گیا۔ (ص: ۱۸۔۲۱)
غنی غیورؔ نے حکیم منظور کو اپنی اس تالیف کے مقدمہ میں شاعر کشمیر کے نام سے یاد کر کے انھیں اور اُن کی اُردو شاعری کو بطریقہ ء احسن متعارف کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے باب میں حکیم منظورکے منتخب اشعار مع اشارات کو جگہ دی ہے ۔ انھوں نے بہت ہی مختصر لفظوں میں ان کے ان اشعار کی تشریح کر کے اپنی تنقید نگاری اور شعر فہمی کا کمال دکھا یا ہے۔ یہ تالیف غیورؔ کی جانب سے شاعر مرحوم کو زبر دست خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اُردو دان طبقہ ضرور بہ ضرور اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھے گا۔
’’مسعود احمد چودھری۔شخص ، شخصیت اور خدمات‘‘ غنی غیورؔ کی ایک اور اہم تالیف ہے جو ۲۰۲۰ء میں طبع ہوئی۔ اس کا انتساب اس طرح ہوا ہے۔
’’ ڈاکٹر مسعود احمد چودھری کے جنت نشین والد گرامی بابو فیض احمد کے نام جن کی شفقت و محبت ، لیاقت و صلاحیت و رہنمائی سے کالابن کے اندھیاروں میںروشنی کی ایسی کرنیں پھوٹیں جن کی شعاعوں میں اُن کی آل و اولاد نے مرحوم و مغفور کے خوابوں کو پیراہن اعتبار بخشا ؎
رات یوں آپ نے آواز دی جیسے صحرا کی مسجد میں نور اذاں
غنی غیورؔنے ابتداء میں اس کتاب کا نام نقش دگر ( سوانح حیات) رکھا تھا جسے بدل کر ’’ مسعود چودھری شخص، شخصیت اور خدمات‘‘رکھا گیا۔اس کا پیش کلام محمد یوسف ٹینگ صاحب نے قلمبند کیا ہے۔ صاحب موصوف نے لکھا ہے کہ:

’’ اگر میں اس کتاب کے فاضل ترتیب کار غنی غیورؔ کی عرق ریزی اور قلمی رقاصی کا ذکر کروں تو وہ ایک بڑی بے الضافی ہوگی۔وہ پیشے سے تو ایک انجینئر ہیں مگر انھوں نےاس کتاب کی تالیف میں جس خوش نظری کااظہار کیاہے وہ مجھے ماؤ ذی تُنگ
کے محاورے کے مطابق حُسن ترتیب کی عمدہ انجینئرنگ کی یاد دلاتا ہے اور اس شعر کی منطق بھی ". ؎

منزل کی دھن میں آبلہ پاکچھ کھڑے ہوئے
شورِ جَرَس سے دل رہا نہ اختیار میں
غنی غیور

خود غنی غیورؔ نے ’’پیش لفظ‘‘ میں بتایا ہے کہ:
’’ زیر نظر کتاب مسعود احمد چودھری کی شخصیت ، نظریات اور جذبات کا جائزہ لینے کی بے لوث سعی ہے۔ اس کتاب میں اُن کے احباب کا اجمالی تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کو آخر ی شکل دیتے وقت دیگر قلمکاروں کے تاثرات کے علاوہ دستاویزی شواہد اور یاد گار زمانہ تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے‘‘۔(ص: ۲۳)
غنی غیورؔ نے جن کتابوں سے استفادہ اٹھایا ہوا ہے اُ ن میں تاریخ اقوام پونچھ، تاریخ اقوام کشمیر، تاریخ پونچھ،تاریخ گوجر ، تاریخ شاہان گوجر ، حیات جاوید، حالی فہمی ، تاریخ راجوری، وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں ۔ ۳۶۷ صفحوں پر چھپی ہوئی یہ ضخیم کتاب غنی غیورؔ کی شخصیت نگاری ، سیرت نگاری اور نثر نویسی کا عمدہ نمونہ ہے۔ آخر پر جاوید راہی کے دو خاص انٹرویو بھی شامل کئے گئے ہیں جن سے مرحوم چودھری صاحب کی زندگی کے کچھ اہم گوشوںپر روشنی پڑتی ہے۔ نیز طالب آفاقی ، محمد اسلم قریشی ، خالد حسین ، قدوس جاوید، ڈاکٹر کمال انجم اور عرفان عارف کے مضامین دے کر مولف کتاب کی وسعت میں نمایاں اضافہ کیاگیا ہے۔ مرحوم مسعود چودھری صاحب کو ۱۵ ؍ستمبر ۲۰۱۲ء کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی راجوری کے کنوکیشن میں یونی ورسٹی کے چانسلر عمر عبداللہ اور مہمان خصوصی این ۔ آر۔ نارائن مورتی مہمان خصوصی نے یونیورسٹی کی جانب سے ڈی ۔لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ اس موقعہ پر جو ’’CITATION‘‘ پڑھی گئی ۔اس کا ایک اقتباس اس طرح ہے:
’’ ایک فرض شناس سوشل محرک ، ایک ادارہ ساز ، ایک محافظ ِ ماحولیات ، ایک مشنری ایک حاکم ، ایک ثقافتی پیامبر، الغرض کئی خوبیاں ایک سے بڑھ کر ایک سے بڑھ کر ایک بدرجہ اتم ایسی موجود ہیں جن میں امتیاز کرنا ممکن نہیں وہ بجا طور پر صفِ اول کے نمائندہ اور حامل ہیں۔ اُن کی گونا گوں خدمات اور قربانیوں کے پیش نظر بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی انہیں نہایت فروتنی کے ساتھ ڈی ۔لٹ کے اعزاز سے نوازتی ہے‘‘۔(ص : ۲۷۶۔ ۲۷۷)
زیر بحث چار ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے جن کے عنونات بالترتیب زیست ِ مسعود بے زبانوں کی زبان ، بابِ ٹرسٹ ۔ نشاۃ ثانیہ ، دانش گاہ، پر تو سرسیّد اور پس آئینہ۔ صدا ئے عمر رفتہ ۔ پیغامات کے حصے میں شری این این وہرہ گورنر جموں و کشمیر ، عمر عبداللہ ( وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر) ڈاکٹر فارق عبداللہ ( ممبر پارلیمنٹ) غلام نبی آزاد( مرکزی وزیر) ، ڈاکٹر کرن سنگھ( ممبر راجیہ سبھا ) پروفیسر سیف الدین (مرکزی وزیر) مفتی محمد سعید ( وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر ) تارا چند ( نائب وزیر اعلیٰ) وغیرہ کے انگریزی پیغام بھی شاملہیں جو چودھری مرحوم کی شخصیت اور خدمات کا اعتراف کرتے ہیں:
’’دستورِ زبان محلی گوجری ‘‘ ۲۰۲۳ء میں شائع شدہ کتاب ہے جو ۱۶۳ صفحوں پر مشتمل ہے اس کتاب کے لکھنے میں تیرہ (۱۳) کتابوں سے استفادہ لیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کا انتساب ’’گوجر دیش چئیریٹل ٹرسٹ جموں کے بانی مرحوم مسعود احمد چودھری ‘‘ کے نام کیا ہے۔ ’’پیش لفظ ‘‘ میں غنی غیورؔ نے لکھاہے کہ:
’’ زیر نظر کتاب میں صرف ، نحو ، صوتیات اور عروض کے تمام پہلوئوں کو مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اُردو قواعد (از عبدالحق) اور گوجری فونیٹک ریڈر سے مثارکت کی ہے اور اہم اضافے کئے ہیں ۔ فونیٹک کے بہت سے پہلو آر ۔سی ۔ شرما نے چھوڑ دئے تھے ۔ وہ بھی بیان کئے ہیں ۔ اگلی کتابوں کو محض دوہرانے کے بجائے گرا نقدر اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب اُردو قالب میں ڈھائی گئی ہے ۔ کوشش کی گئی ہے کہ گوجری زبان محلی کا غائر مطالعہ کتابی شکل میں پیش کیا جا سکے‘‘۔ (ص: ۸۔ ۱۰)
مصنف نے ’’دستور زبانِ محلی گوجری ‘‘ کو گوجری فونالوجی (صوتیات کا مطالعہ ) گوجری مارفولوجی (صوتیات کی ساخت گوجری)، گجراتی و معجمی رشتہ ، گوجری ، گجراتی ہندی اور اردو کا تقابلی مطالعہ ، گوجری اور میواتی کا تقابلی مطالعہ ، پنجابی اور گوجری کے مشترکہ الفاظ گوجری اُردو لیپی اورگر امر کے مسائل ، اسم فعل کا بیان ، گوجری زبان کے شاعروں کا عروضی مطالعہ کے گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ جن گوجری زبان کے شاعروں کا عروضی مطالعہ پیش کیا گیاہے ۔اُن میں اسماعیل ذبیح ؔ ، رانا فضل حسین ، اسرائیل اثرؔ، ڈاکٹر صابر آفاقی اور اقبال عظیم چودھری خاص طور پر شامل ہیں۔ بنیادی اعتبار سے یہ گوجری زبان کے گرائمر اور لسانی صورت حال کا ایک تحقیقی اور تجزیاتی فاضلانہ مطالعہ ہے جس سے اس زبان کو بولنے ، برتنے، پڑھنے ، لکھنے اور برتنے والوں کو بڑی مدد مل سکتی ہے۔ وسیع النظری سے کام لیا جائے تو یہ حوالہ جاتی نوعیت کی دستاویزبن گئی ہے جس کے لئے غیور ؔ کا یہ کام قابل قدر اور لائق تحسین و مرحبا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے