رفیق راز : جموں و کشمیر میں اردو غزل کے بڑے شاعر
تبصرہ و تنقید از غنی غیور
غنیم صف سے نکلتے ہی مجھ پہ چڑھ دوڑا
رجز کی رسم ہی دنیا نے اب بھلا دی ہے
بعد میں بولتا رہتا ہے لہو حشر تلک
پہلے کچھ پل کے لئے تیز سناں بولتی ہے
رفیق راز
بعض لوگوں کا ماننا ہے :ـ غزل کہنا بہت آسان ہے”لیکن میں کہتا ہوں کہ غزل اگر فقط قافیہ پیمائی اور مشاعراتی سطح تک محدود کردی جائے تو شاید یہ مفروضہ درست بھی ہوسکتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ زندہ غزل کہنا بہت مشکل ہے ۔زندہ غزل سے میری مراد غزل کے اشعار میں اپنے ذاتی تجربہ اورمشاہدےسے کوئی نئی بات پیدا کرنا یا پھر کوئی ایسا ان دیکھا اور ان سنا نکتہ اجاگر کرنا جو قاری کو بھرپور تازگی کا احساس دلائے اور اس کےدل و دماغ پر آبشاری کیفیت طاری کردے ! ایسی کیفیت جو موجِ نوخیزکی طرح دیکھتے ہی دیکھتے دم نہ توڑ بیٹھے بلکہ دل و دماغ پر دیرپا جادوئی کیفیت طاری کرے اور مزید ایسے کلام کوباربار پڑھنے پر یہ کیفیت برقرار رہے۔ میرے خیال میں یہاں شاعری ساحری کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ حقیقی فن پارہ میں سحر انگیزی کے علاوہ کچھ استعارے یا ایسےجدلیاتی الفاظ بھی موجود ہوتے ہیں جو اسے زمانی شکست و ریخت سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ آنے والے وقت میں نئے نئے مفاہیم دیتے ہیں ۔
بے شک ایسی سچی غزل کہنا بہت مشکل ہے ۔ سچا شاعر خوبصورت اور ان چھوا استعاراتی اور تشبیہاتی نظام وضع کرتا ہےجو حشو و زاید سے پاک ہوتا ہے سچے شاعر کا کلام کلیشہ زدہ(Stereo-type)
نہیں ہوتا بلکہ وہ دور رس نظر سے اپنی تخلیقات میں انوکھا پن اور نئی تان پیداکرتا ہے۔
رفیق راز اپنے حالات سے بیخبر نہیں بلکہ انکے بہت سےمشاہدے جو ماحول کی عکاسی کرتے ہیں اشعار میں ڈھل گئےہیں پچھلی تین چار دہائیوں کے حالات کی پرچھائیاں لطیف استعاروں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔
کرفیو:
کرفیو لگا اور گھر میں پاؤں جو رکّھا
سامنے تنہائیوں کی فوج کھڑی تھی
لاشیں اور گدھ:
اب ان لاشوں کی وہ حالت ہوئی ہے
کہ رد کردیں گدھوں نے بھی اڑانیں
چٹان:
اگر چٹان کی یہ چپ کلام ہے سائیں
تو پھر ہماری سماعت ہی خام ہے سائیں
بجا کہ شہر میں ارزاں بہت ہیں خواب مگر
یہاں تو نیند ہی ہم پر حرام ہے سائیں
رفیق راز
رفیق راز کے کلام یں بکثرت علامتیں اوراستعارے موجود ہیں ۔ ابتدا ہی سے انکے کلام میں یہ عنصرنمایاں ہے ۔ کہیں کہیں روایتی اشعار بھی ہو گئے ہیں جیسا کہ انہوں نے کشادہ دلی سے خود ہی اعتراف کیا ہے ۔
اس غزل میں رفیق راز تری
رنگ آنا ہی تھا روایت کا
نیز
چار قدم چل کے دیکھتا تھا پلٹ کے
ایک روایت کی دھند، سر میں ابھی تھی
لیکن یہ روایتی رنگ بہت کم غزلوں میں دیکھا جاتا ہے اور رفیق راز اس دھند سے جلد ہی باہر نکل جاتے ہیں مثلاً اگر ان کا دھیان معشوق کے بدن کی طرف جاتا ہے تو وہ اس کا اظہار انوکھے استعاراتی انداز میں کرتے ہیں۔
کیا کروں تیرے بدن کی تعریف
شعلہ اک کا غذی پوشاک میں ہے
سر زمینِ کشمیر کو چشمہ زار کہا جائے تو بھی بجا ہے یہاں اطراف میں ڈھلوانوں سے بہتے ہوئے جھرنے دیکھ کر انہوں نے کیا خوب شعر کہا ہے:
پیاس میری بھی ںجھاتے ہیں پہاڑی جھرنے
ورنہ مامور ہیں یہ تیری ثناخوانی پر
روایت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان جھگڑا پہلے ہی سے چل رہا ہے۔ لیکن وقت بہترین منصف ہوتا ہے جو لوگ سستی شہرت یا پذیرائی کے لئے شاعری کرتے ہیں دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ان کے چراغ جلد ہی بجھ جاتے ہیں ۔ اور جبکہ سچے فن پارے شکست و ریخت سے بچ بچاکر یادگار زمانہ بن جاتے ہیں ۔ رفیق راز کے بعض خوبصورت اور لازوال اشعار:
میرا چراغ شہرِ سخن میں چمکتا کیا
گہری یہاں بہت ہی سیاست کی دھند تھی
پڑا رہ بدن کے دریچے نہ کھول
مری انگلیوں میں ہوس ناکی ہے
ابھی تو بر سرِپیکار موجِ آب سے ہوں
ابھی ہوں بیچ میں اس پار ردیکھئے کیا ہو
اٹھو کہ جوش پہ آئی ہوئی ہے وہ رحمت
یہ وقت دست کے کشکول میں ہے ڈھلنے کا
یہ جو آنسو ابھی ابھی ٹپکا
استعارہ ہے شادمانی کا
سبزہ تو دیکھ موسمِ گل میں بھی زرد ہے
آہستہ چل زمین کی چھاتی میں درد ہے
اٹھی ہے تو محال ہے اب اسکا بیٹھنا
دو قافلوں کے بیچ میں حائل جو گرد ہے
گلوئے خشک سے تقریر کر رہا ہے کوئی
تڑپ رہا ہے زمیں دوز کوئی چشمہ ابھی
مرے تو سامنے ہی نقش پائے قصوی* ہے
میں کوئی اور مصلٌا بچھا نہیں سکتا
*آنحضرت علیہ السلام کی اونٹنی کا نام ہے
میرے خیال میں رفیق راز کے (متعدد شعری مجموعوں کے)مطالعہ سے یہ عندیہ کھلتا ہے کہ فکر وفن کےاعتبار سے رفیق راز اس وقت ہماری ریاست کے اہم ترین شعراء میں سے ہیں اور میدان ِغزل کے شہسوار ہیں انکے بہت سے مصرعے /اشعار /غزلیں ہمارے ادبی سرمایہ میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ع
ابلیس کا تو نام ہے انکارسے روشن
بھیڑ میں تنہا یقیناً ہوں مگر اتنا نہیں
چاپ اوروں کی سنایی ہی نہ دے ایسا نہیں
رفیق راز
رفیق راز کا کلام سطحیت اور پایابی جیسے نقائص سے پاک ہے بلکہ بہت سے اشعار کے اندر معانی کی تہہ بہ تہہ پرتیں موجود ہیں ۔یہی صفت انکے کلام کو معاصرین سےمتمیز کرتی بے شک وہ اس عہد میں بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور ان کی تیسری آنکھ کھل چکی ہے۔
زمیں پہ بوجھ ہیں یہ بے ثمر خمیدہ شجر
ہیں انتظار میں آرے کے سن رسیدہ شجر
غزال تک ترے صحرا کے پرسکوں ہیں بہت
ہمارے شہر میں ہیں خوف سے رمیدہ شجر
رفیق راز خاموش طبع شخصیت کے مالک ہیں انکی خاموشیاں انکے صاحب اسرار ہونے کا پتہ دیتی ہے۔
چپ ہوئے یا نہر جاری ہوگئی ہے فکر کی
لب کھلے اس کے کہ شیشی کھل گئی ہے عطر کی
لب سی لئے ہیں ہم نے کچھ ایسے رفیق راز
جیسے ہمارے سینے میں کوئی خزانہ ہو
رفیق راز