غنی کشمیری، فارسی کےعالمی شہرت یافتہ شاعر
تبصرہ و مضمون از غنی غیور

(ا) :غنی کشمیری :تاریخی وادبی پس منظر میں :

کشمیر میں فارسی زبان چودھویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہوچکا تھا جب سید اشرف الدین موسوی ترکستانی جنہیں بلبل شاہ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ۔ کشمیر آئے اور رینچن نے انہی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ تھوڑا عرصہ بعد شاہ میرزا یعنی شاہ میر کے دور حکومت میں علمی زبان فارسی ہی مقرر ہوچکی تھی۔
کشمیر میں رشی فقیروں اور صوفیوں کا سلسلہ،تجرد اور ریاضت کا حامی تھا شیخ نور الدین رشی یا نندہ رِشی (1377 تا 1440ء) کشمیر کے عظیم صوفی ہوئے ہیں للا عارفہ اور
شاہ ہمدان 1314 تا 1385عیسوی ) تقریبا.ٕہم عصر ہیں ۔ شاہ ہمدان متبحر عالم اور بلند پایہ صوفی تھے۔ انہوں نے میانہ روی کی تعلیم دی تھی یعنی علما ظاہر اور رشیوں کے بیچ کی راہ ۔ انکا ایک قول فتاوٰی ہمدانیہ میں میری نظر سے گذراہے
الطرق الي الله كعدد انفاس خلايق یعنی اللہ سے ملنے کی راہیں مخلوق کی سانسوں جتنی ہیں ۔ یعنی انسان کسی بھی عمل مقبول سے خدا تک رسائی کرسکتا ہے ۔
شہمیری سلاطین کے آخری دور میں سید علی ہمدانی یعنی شاہ ہمدان بھی کشمیر میں تشریف لائے۔ سلطان زین العابدین یا بڈھ شاہ کو شہمیری خاندان کا گل سرسبد کہا جاتا ہے۔

وادی کشمیر کے اکثر صوفیا صلح کل تھے اور مسلکی نزاع سے بیزار تھے کشمیر کے مرکز رینہ واری کے مخدوم صاحب مقبول خاص و عام درویش تھے مخدوم صاحب کا اصلی نام امیر حمزہ رینہ تھا ہری پربت کے دامن میں آج بھی انکا مزار مرجع خلائق ہے ۔ بابا داؤد خاکی مخدوم صاحب کے مرید خاص تھےاور بابا داود خاکی اور شیخ یعقوب صرفی ہم عصر تھے اور دونوں ہی کامل ہستیاں تھیں ۔

گه بمسجد روم و گاه به میخانه شوم
من بی چاره تر می طلبم از هر سو
‌نتوانم که شمارم کرم و نعمت تو
گر زبانم شود اندر تن من از هر سو

بابا داؤد خاکی

مخدوم صاحب متوفی 1581ء کے شاگرد بابا داؤد خاکی علماء میں سب سے ذیادہ سر بر آوردہ تھے بابا داؤد خاکی اور شیخ یعقوب صرفی اور انکے ہمنواؤں نے اکبر بادشاہ کو یوسف شاہ چک کی بد اعتدالیوں سے آگاہ کیا اور مداخلت کی درخواست کی ۔اکبر بادشاہ نے یوسف شاہ چک کو معزول کردیا اسطرح کشمیر کا الحاق مغلیہ سلطنت سے ہوگیا ۔ اسطرح مغل شہنشاہوں کا کشمیر میں آمدو رفت کا سلسلہ شروع ہوا ۔
شیخ یعقوب صرفی ژرف نگاہ عالم اور ہمہ گیر طبیعت کے مالک تھے ابن حجر سے حدیث کی سند حاصل کی تھی۔ فیضی سے انکی اچھی راہ و رسم تھی فیضی نے اپنی بے نقطہ تفسیر، سواطع الالہام پر تقریظ شیخ یعقوب صرفی سے لکھوائی تھی۔

در صد هزار آئینه یک رو ست جلوه گر
در هر چه بینم آن رخ نیکو ست جلوه گر
خلقی بهر طرفی شده سرگشته بهر دوست
وین طرفه تر که دوست بهر سو ست جلوه گر
شیخ یعقوب صرفی

مغل عہد

مغل عہد کشمیر 1585ء سے 1628ء تک ، اس عہد میں بقول مورخ کشمیر پیر غلام حسن
«در حکومت شاهان مغل بازار شعر و سخن بسیار گرم بود» یعنی شاہان مغل کے عہد میں شعر و شاعری کا بازار گرم تھا۔ ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کے مطابق،
اکبر بادشاہ 5 جون 1589ء کو بڑے علماء اور شعراء کے ساتھ کشمیر میں وارد ہوا۔ ان میں ابولافضل فیضی اور عرفی بھی شامل تھے (بحوالہ کشمیر اے ہسٹری آف کشمیر، چیپٹر کشمیر انڈر دی مغلز صفحہ244 )
فیضی نے اکبر بادشاہ کی مدح میں قصیدہ پڑھا جس کا مطلع یہ ہے۔

هزار قافلهٔ شوق می کند شبگیر
که بار عیش کشاید به عرصهٔ کشمیر
فیضی

اکبر کے حکم سے قلعہ ہری پربت تعمیر ہوا تھا۔ اکبر کے بعد جہانگیر کے عہد میں مشہور درباری شاعر عرفی بھی کشمیر آیا۔ اسکے قصیدہ کے بعض اشعار یہ ہیں

ہر سوخته جانی که به کشمیر در آید
گر مرغ کباب است کہ بال و پر آی

بنگر کی ز فیضش چہ شود گوہر یکتا
جائیکہ خزف گر رود آنجا گہر آید

این سبزه و‌این چشمه و این لاله و این گل
آن شرح ندارد که به گفتار در آید
عرفی

جہانگیر کے عہد میں ملک الشعراء محمد طالب آملی بھی کشمیر آئے تھے انہوں جو قصیدہ کہا اسکا مطلع یہ ہے۔
فیض پیاله بخشد آب و هوای کشمیر
از خشت خم نهادند گویا بنای کشمیر

مغل عہد سے پہلے ہی چک خاندان کے دور حکومت میں کشمیر کے حالات سخت خراب رہے مسلکی جنگوں کا دور تھا۔ علماءظاہر اور صوفیا کی چپقلس کے علاوہ شیعہ سنی فسادات بھی ہوتے تھے فیضی نے اس کا ذکر یوں کیا ہے۔

زبان کشیده به دارالقضای عجب و ریا
شہود کذب ز دعوی گران ایمانی
اگر حقیقت اسلام در جہان اینست
ہزار خندہ کفر است بر مسلمانی
فیضی

بادشادہ اکبر ملاوں کے مناقشات سے دل برداشتہ ہوا تصوف کا سہارا لینا چاہا لے کر دین الہی کا منصوبہ بنایا لیکن افترا پردازوں نے اکبر کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا۔ ملا شیری کہتا ہے

پادشاہ امسال دعوای نبوت کردہ است
گر خدا خواہد پس از سالی خدا خواہد شدن
ملاشیری
بعض اعتدال ہندو ودوانوں نے "رام و‌ رحیم حقیقة یکی است” کی تحریک چلائی لیکن شیخ احمد
سرهندی نے اسے توہین اسلام قرار دیا نیز جہانگیر کے سجدہ تعظیمی کے پروٹسٹ میں protest شیخ احمد سرہندی نے سخت روش اختیار کی ۔ "چله کشی، سماع ورقص، چراغان کردن بر قبرهای‌مردگان وسجده به غیر خدا و حتٰی پابوسی مرشدان مجاز نیست” ۔ کا فتوی صادر کیا ۔ اور دین الہی کی سختی سے تردید کی اکبر کے بعد جہانگیر نے مذہبی رواداری اور میانہ روی اختیار کی ۔ البتہ شاہجہان کی روش مکمل اسلامی تھی ملاوں نے اس کو اس خطاب سے یاد کیا تھا ۔«باد شاه اسلام نواز وکفر گداز»۔
شاہ جہان کے عہد میں کشمیر کے ناظموں میں ظفر احسن خان اور علی مردان خان نے سب سے لمبا عرصہ نظامت کی مغل شہنشاہ کشمیر کے قدرتی حسن پر فدا تھے ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان نے نشاط باغ بنوایا دارا شکوہ نے پری محل بنوایا تھا۔

مغل دور میں مجموعی طور پر تعمیر و ترقی ہوئی سڑکوں پلوں کے علاوہ کشمیر میں باغات لگوائے گئے اور انکی تعمیرات کا یہ سلسلہ یادگار زمانہ ہے ۔ جہاں کہیں کوئی چشمہ یا چناروں کا جھنڈ دیکھا وہیں کوئی یادگار بنادی ۔ اسطرح کشمیر میں سیاحت بنیاد پڑی اور آج بھی ویری ناگ، اچھا بل، چشمہ شاہی پری محل، شالیمار نشاط باغ ایسے دلکش اور صحت افزا مقامات ہیں کہ جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔ مغلیہ عہد کے دوسرے مشاہیر

دارا شکوہ اور ملا شاہ

صوفی ملا شاہ جو میاں میر لاہوری کے مرید تھے مغل شہزادے میاں میر کے معقتد تھے میاں میر لاہوری اور شیخ سے اجازت لے کر کشمیر آگئے ۔ دار شکوہ اور اسکی بہن جہاں آرا نے ملا شاہ کے لئے پری محل بنوایا یہاں کئی سال تک حبس دم کا شغل کرتا رہا اور ریاضت میں منہمک رہا۔ ملا شاہ کی ایک رباعی

آنرا که‌ بجا است بر سر ایمان جنگ
او مومن وز ایمان او را صد ننگ

مومن نشود تا که برابر نشود
ببانگ نماز ناقوس فرنگ

ملا شاه

روی او در مقابل مرأت
روی ما بود در مقابل او

از سر اتحاد این برخاست
میل ما‌ اوست مایل ما

ما که جز حق نه ایم از عرفان
پس چه پرسی ز حق و باطل ما

ملا شاه
یہاں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسی عہد کے ایک ہندو سنت جو فارسی کے شاعر بھی تھے اور ملا شاہ کے نظریات میں کوئی فرق نہیں دونوں وحدت الوجود کے قائل تھے۔

مانه آن خودیم آن تو ایم
بی نشانی تو ما نشان تو ایم
این نشانها نشان ذات تو اند
مظهر جلوه صفات تو اند

پاکی از فکر و از قیاس ما
ای تو پیدا درین لباس ما
مظهر ذات تو همه اشیاء
بی تو و ما توی وخود تو ما
دلی رام

دارا شکوہ مزہبی رواداری کا قائل تھا اس نے مجمع البحرین تالیف کی اور اسکا آغاز اس شعر سے کیا

بنام آنکه نامی ندارد
بهر نامی که خوانی سر بر آرد
دارا شکوہ
اس دور میں سرمد برہنہ بھی ہند میں وارد ہو چکا تھا اور دارا شکوہ، سرمد سے کچھ راہ و رسم رکھتا تھا۔ سرمد وحدت الوجود کا المبردار تھا اس نے منصور کی آواز کو پھر سے دوہرایا ۔

سرمد غم عشق بولهوس را نه دهند
سوز دلی پروانه مگس را نه دهند
عمری باید که یار آید بکنار
این دولت سرمد همه کس را نه دهند
سرمد
سرمد تو حدیث کعبه و دیر مکن
در وادی شک چو گمراهان سیر مکن
هان شیوه بندگی ز شیطان آموز
یک قبله گزین و سجده غیر مکن
سرمد

هر چند که صد دوست بمن دشمن شد
از دوستی یکی دلم ایمن شد
وحدت بگزیدیم وز کثرت رستیم
آخر من از و شدم او از من شد
سرمد

مغلوں کے عہد میں کشمیر بہت سے شعرا اور علما کا مسکن بن گیا اور کئی شعرا نے کشمیر میں وفات پائی مثلاً محمد جان قدسی مشہدی (متوفی1056ہجری) اور محمد قلی سلیم (1061ہجری) وفات پا گئے تھے انکے علاوہ کلیم تینوں مزار شعرا میں دفن ہوئےاوراعلے پایہ کے شاعر تھے۔ محمد قلی سلیم غزل کے بلند پایہ شاعر تھے۔

میان غمگساران سوزم از غم
چون آن کشتی که در دریا بسوزد
سلیم
توان از دانہ ہائے سبحہ دانست
کہ دلہا را بہ دلہا راہ باشد
سلیم
: غنی کشمیری نے کلیم کا تاریخ وفات کا قطعہ لکھا:

حیف کز دیوار این گلشن پرید
طالبا، آن بلبلِ باغِ نعیم
رفت و آخر خامہ را دست داد
بی عصا طی کرد این رہ را کلیم
عمر ہا در یاد او زیرِ زمین
خاک بر سر کرد قدسی و سلیم
گفت تاریخ وفات او غنی
طور معنی بود روشن۔۔۔۔۔ از کلیم (1061ہجری)

اس کے شاعر میر الہی کی تاریخ وفات 1064ہجری بھی غنی کشمیری نے لکھی ہے

گفت تاریخ وفاتش طاہر
برد الہی ز جہان گوی سخن۔۔۔۔۔۔۔( 1064ہجری)

غنی کشمیری نے 1074ہجری میں اسلام خان کی تاریخ وفات کا قطعہ کہا ہے۔
جَست این مصرع از زبان غنی
مرد اسلام خان والا جاہ ۔۔۔۔۔۔۰یعنی 1074ہجری

میر معصوم کاشانی ، میزا رفیع الدین حیدر معمائی کے بیٹے تھے ۔
(بحوالہ کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ از عبدالقادر سروری)
ظفر خان احسن نے معصوم کا ذکر یوں کیا ہے:
بشگفد دل ز صحبت معصوم
صائب احسن گواہ حال من است
احسن

رفیع الدین حیدر معمائی,ظفرخان احسن کے ساتھ کشمیر آئے تھے۔ ظفرخان احسن پہلی بار 1632عیسوی میں کشمیر کا ناظم مقرر ہوا تھا اور سات سال تک عہدہ پر فائز رہا پھر دوسری بار دو سال کے لئے دوبارہ ناظم مقرر ہوا اور غنی کشمیری کا نام ظفر خان احسن کے درباری شعرا میں نہیں ملتا ۔ کیونکہ وہ جلوت کے بجائے خلوت پسند کرتے تھے۔
ملا طغرای مشہدی جب شہزادہ مرادبخش ناظم کشمیر مقرر ہوا تو نکی صحبت میں رہے ۔ یہ تھوڑی بعد کی بات ہے۔ غنی کشمیری نے طغرا پر طنز کی ہے اس کا مطلب ہے شہزادہ مراد بخش کے عہد میں غنی کشمیری موجود تھے اور وہ شہزاد مراد بخش کے دربار سے منسلک شعرا سے اختلاف رائے رکھتے تھے ۔غنی کا مزاج قلندرانہ تھا۔ ایک رباعی میں طغرا کی ہجو لکھی ہے ۔

طغرا کہ بود روح کثیفش چو جسد
بہ صاف ضمیران شدہ دشمن ز حسد
گوید که برند شعرش ارباب سخن
نامش نبرند تا به شعرش چه رسد
غنی کشمیری

ملا طغرا رینہ واری رہتے تھے اور دیوانوں کی طرح ایک دوکان پر بیٹھے رہتے تھے۔ ملا طغرا ہندوستان میں کافی پریشانیاں اٹھانے کے بعد کشمیر آئے تھے

در تیرہ زمین ہند دلگیر شدم
شاید بکفم گل جوانی آید

ملا طغرا
ملا طغرا کے علاوہ رفیع الدین حیدر معمائی کا ذکر غنی نے یوں کیا ہے۔

نگفته ایم غزل در زمین طرح رفیع
که میشود سخن ما درین زمین کم سبز

غنی کشمیری

‌ملا محسن فافی کشمیری، ملا یعقوب صرفی کے شاگرد تھے انکا انتقال 1671ء یعنی 1082 ہجری میں ہوا. ظفر خان احسن کے عہد میں فانی کا شمار اچھے شاعروں میں ہوتا تھا ظفر خان سے اختلاف کے باعث وہ کشمیر چھوڑ کر دہلی چلا گیا۔لیکن وہاں کا موسم پسند نہیں آیا۔
کرد است ہوای ہند دلگیر مرا
ای بخت رسان بباغ کشمیر مرا
فانی

گو ظفر خان داغ شو امشب کہ فانی این غزل
در الٰہ آباد پیش قدر دانی خواندہ است
فانی

فانی نے مثنویوں اور قصائد کے علاوہ غزلیں بھی کہیں بعض اشعار:
بسکه عیش می کشان تلخ است در ایام ما
باده هم شیرین نباشد در مذاق جام ما
فانی

ترجمہ ہمارے عہد میں میکشوں کا عیش و آرام تلخ ہوگیا ہے۔شراب بھی ہمارے مذاق سخن کے مطابق نہیں ۔
چشم دارم کز غمت چشم تری پیدا کنم
از برای خوردن خون ساغری پیدا کنم
فانی
ترجمہ
آنکھ اس لئے کہ تیرے غم میں اسے تر رکھوں یہ انکھیں خون دل پینے کےلئے پیالے ہیں
فانی ہندوستانی آب و ہوا کا خوب ذکر کیا ہے ہندی الفاظ کو استعما کیا۔ بیل (بہل) پان، راگ بسنت وغیرہ

نو بہار آمد بہ سیر گلشن ہندوستان
زیبد ار طوطی به جای پر ب آرد برگ پان
در چمن ہر صبح مینا می کند راگ بسنت
نیست طوطی را به جز‌ کلیان چو بلبل زبان
فانی

ملا محسن فانی کشمیری کے متعلق، مولف کلمات الشعرا کہتا ہے:
«خود را از موحدان می گرفت و از اکابر کشمیر صوفی مشرب بود» یعنی خود کو موحدین میں شمار کرتا تھا کشمیر کے اکابرین میں سے ایک صوفی منش تھا۔ملا محمد طاہر غنی کشمیری ملا محسن فانی کے شاگرد ارجمند تھے۔
بقول عبدالقادر سروری:

فانی کے شاگردوں میں ملا محمد طاہر غنی کو جو مرتبہ حاصل ہوا وہ نہ صرف فانی کے دوسرے شاگردوں بلکہ کشمیرکے فارسی شعرا میں کسی کو کم حاصل ہوسکا شاعری میں غنی کی شہرت نے فانی کو باوجود انکے علم و فضل کے پس منظر ڈال دیا

بی شک غنی کشمیری نے کشمیر میں فارسی شاعری کے معیار کو بلند کیا اور کشمیر بھی دنیا کے ادبی مراکز میں شمار ہونے لگا۔
غنی کشمیری سرینگر میں راجوری کدل کے قریب رہا کرتے تھے۔ غنی کشمیری دربار سے منسلک نہیں رہے ۔ انہوں نے فقیرانہ زندگی ۔گزاری۔یہی وجہہ ہے ظفر خان احسن کے درباری شعرا کی فہرست میں غنی کا نام نہیں لیا گیا۔

بقول علی جواد زیدی
«غنی کشمیری کی ابتدائی زندگی کے حالات بالکل تاریکی میں ہیں انکے والد کانام یا سن ولادت بھی کسی کو معلوم نہیں ولادت کے بارہ میں مفتی محمد سعادت کشمیری نے 1041 ہجری کا تخمینہ لگایا ہے جو بالکل غلط ہے اور محمد امین داراب نے 1020ھجری کا اندازہ لگایا ہے جو بالکل غلط ہے یہ دونوں ہی اندازے ظنی ہیں اور ان پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اتنا قطعی طور پر معلوم ہے کہ جب 1041ہجری میں صائب کشمیر آئے تو انکی شاعری مسلم ہو چکی تھی یہ غنی کی جوانی کا زمانہ رہا ہوگا۔ غنی کا تعلق اشائی خاندان سے ہے یہ خاندان بخارا یا خراسان سے ترک وطن کر کے کشمیر آبسا تھا»

فارسی کے اہم تذکرہ نگار منشی احمد حسین سحر کاکوروی نے مشہور تذکرہ "طور معنی” میں بڑھا چڑھا کر لکھا ہے ۔ گوییند مرزا صلئب این بیت او شنیده عزیمت کشمیر نمود.
موی میان تو بود کرالپن
کرد جدا کاسه تن ز سر جدا
غنی کشمیری
ترجمہ
کرالپن رشته است که کوزه گران کاسه را از چرخ بدو جدا می سازند

حسن سبزی بخط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمین بود گرفتار شدم

صائب نے غنی کے مذکورہ بالا شعر پر کہا تھا:
این همه که تمامی عمر گفته خود گفته ام به این کشمیری دادند و و این بیت بمن.
( بحوالہ طور معنی)

از اہل سخن بہ قلندر نہ رسد
در شعر باو عرفی و سنجر نہ رسد
غنی کشمیری
ترجمہ
یعنی قلندر سے بڑھکر کوئی شاعر نہیں حتی کہ عرفی و سنجر بھی نہیں۔

کردست هوای هند دلگیر مرا
ای بخت رسان بباغ کشمیر مرا
گشتم ز حرارت غریبی بی تاب
از صبح وطن بده تباشیر مرا
غنی کشمیری
ترجمہ
موسم ہند نے مجھے دلگیر کیا ہے اے بخت مجھے کشمیر پہنچا پردیس کی گرمی سے سخت پریشان ہوں مجھے صبح وطن کی روشنی دکھا ۔
تباشیر سفید قسم کی دوا ہے جو ہندی بانس کے گودے سے حاصل کی جاتی ہے۔ تباشیر یہاں صبح کی روشنی کا استعارہ ہے۔

بر خیز غنی هوای فرودین است
می نوش که وقت باده خوردن این است
فصلی است که آشیان مرغان چمن
از کثرت گل چون سبد گلچین است
غنی کشمیری
ترجمہ
ابر بہار چھایا ہے اے غنی اٹھ بادہ خوری کا وقت ہے اس وقت ہرندوں کے گھونسلے گلچین کی ٹوکری جیسے ہوگئے ہیں ۔

ترسم که ز چشم اهل بینش افتی
چون طفل سرشک مردم آزار مباش

ترجمہ: اہل بینش کی آنکھ سے تیرے ٹپکنے کا ڈر ہے ۔ اے طفل سرشک مردم آزار نہ بن۔

غنی کشمیری یہی خیال دوسرے شعر میں یوں پیش کیا ہے

هر کس که توانا است‌ کشد رنج زیاد
نشتر بود از تیشه برای رگ سنگ
طاہر غنی
ترجمہ
یعنی جو جتنا بڑا ہوتا اتنے ہی زیادہ رنج اٹھاتا ہے تیشہ کا نشتر سنگ کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی نشتر کو چوٹیں سہنا پڑتی ہیں

مقاصد جن کے اونچے اور اونچا بخت ہوتا ہے
زمانے میں انہی کا امتحاں بھی سخت ہوتا ہے
حفیظ جالندھری

طفل سرشک سے "طفل اشک” کی ترکیب رائج ہوگئی۔ اردو میں بہت سے ایم شعرا نے استعمال کیا ہے۔

دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے "طفل اشک ”
روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا
سودا

"طفل اشک” ایسا گرا دامان مژگاں چھوڑ کر
پھر نہ اٹھا کوچۂ چاک گریباں چھوڑ کر
ذوق

زیبا ست خوی آتش اولاد بو لهب را
تو ابن بو ترابی باید که خاک باشی

غنی کشمیری
ترجمہ:
ابولہب کی اولاد آگ کی روش کی سزاوار ہے تمہاری نسبت بو تراب یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہے اس لئے خاکساری اختیار کر۔

غالب نے یہی خیال بقدرے مشکل لہجے میں یوں ادا کیا ہے ۔

غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں بندگیِ بو تراب میں
غالب

چشم ہر کس کہ شد از سرمۂ عرفان روشن
آتش طور ز ہر سنگ تواند دیدن
غنی کشمیری
: ترجمہ
جس کسی کی آنکھ سرمۂ معرفت سے روشن ہوئی، اسے ہر پتھر میں شعلۂ طور دکھائی دیتا ہے۔
یہی خیال سودا کے یہاں موجود ہے یہ حسن اتفاق ہے یا پھر غنی کشمیری کے خیال کی بازگشت سودا کے شعر میں سنائی دیتی ہے۔

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا
سودا

در ماتم فرزند مریز اشک بخاک
صد طفل مکن برای یک طفل ہلاک
غنی کشمیری

ترجمہ: فرزند کے ماتم میں یہ اشک مٹی میں مت ملا ایک بچے کے لئے سو بچہ مت ہلاک کر۔
یہاں اشک کو طفل سے تشبیہہ دی ہے ۔

رباعی
بر خیز و بجنگ خصم شمشیر ببند
بر تیر نظر بسان زهگیر ببند

در رزم ز اسباب فراغت بگذر
پر را بکش از بالش و بر تیر ببند
غنی کشمیری

ترجمہ: دشمن کے خلاف جنگ میں تلوار اٹھا اور تیرے تیر نظر میں زہگیر چھپا ہونا چاہئے۔ آرام و فراغت سے گذر اور جنگ کی تیاری کر اپنے تکیہ سے پر کھینچ اور اسے تیر میں پیوست کر۔
رباعی

ای باد صبا طرب فزا می آئی
گویا کہ ز کوی یار می آئی
از کوی کہ برخاستۂ راست بگو
بسیار بہ چشمم آشنا می آئی
غنی کشمیری

ترجمہ
اے باد صبا تو کسقدر طرب افزا ہے
مجھے لگتا ہے تو یار کے کوچہ سے آئی ہے سچ بتا تو کہاں سے آئی مجھے تجھ سے آشنائی کی چمک آرہی ہے ۔

غنی کشمیری کے شاگرد محمد علی ماہر نے غنی کشمیری کا مختصر دیوان مرتب کیا ۔
محمد زماں نافع غنی کشمیری کے بھائی تھے۔ عبداقادر سروری نے لکھا ہے کہ عنایت اللی خان آشنا کا دعوی تھا کہ جو شعر پڑھتے ہی سمجھ میں نہ آئے اسے بے معنی سمجھتا ہوں جب غنی نے یہ سنا تو کہا .
” تا حال اعتمادی بر شعر فهمی عنایت الله خان داشتم امروز آن اعتماد برخاست ”
ترجمہ یعنی ابھی تک مجھے عنایت اللہ خان آشنا کی شعر فہمی پر اعتماد تھا لیکن آج وہ اعتماد اٹھ گیا ہے” بقول ماہر اسکے بعد « بعد ازان هیچ گاه از خان مذکوره ملاقات نکرد.
ترجمہ پھر اسکے بعد غنی کشمیری، خان مذکور یعنی آشنا سے کبھی نہیں ملے ۔

سچ یہی ہے کہ طاہر غنی، اسلام خان ناظم کشمیر (1074 تا1075 ہجری
کے بعد سیف خان ناظم کشمیر (1075 تا1078ہجری) سے گہرا ربط رکھتے تھے اس زمانہ میں انکی سخن گوئی عروج پر تھی ۔ بعدازاں طاہر غنی نے اورنگ زیب کے گھوڑے پر ایک رباعی کہی تھی۔
رباعی

گلگون تو هست بس که سرعت آئین
چون رنگ سبک می پرد از روی زمین
گردید بلند آتش غیرت برق
زین باد که جسته است از دامن زین
غنی کشمیری

ترجمہ: تیرا سرخ گلاب جیسا گھوڑا بہت تیز رفتار ہے۔ جس سے روی زمیں کا رنگ تھوڑا اڑ رہا ہے اس کے ٹاپوؤں سے غیرت کی شعلے اٹھ رہے ہیں اس کی زین کے دامن سے باد صبح چلتی ہے ۔ اور خوشبری لاتی ہے ۔

(ب)

غنی کشمیری کا فکر وفن

ملا محمد طاہر غنی (متوفی ١٦٦٩ عيسوي) المعروف غنی کشمیری

کچھ گدا شاعر نہیں ہوں میر میں
تھا مِرا سر مشق دیوانِ غنی
میر تقی میر

میر تقی میر اردو غزل کے نہایت معتبر اور بلند مرتبہ شاعر ہیں ۔انہوں نے غنی کاشمیری کے دیوان میں ضرور کچھ غیر معمولی اشعار کی نشان دہی کی ہوگی تبھی اس عالی ہمتی و فراخدلی کے ساتھ غنی کشمیری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ۔ اقبال نے بھی غنی کشمیری کو سراہا ہے ۔ بلکہ انکے ایک شعر پر تضمین لکھی ہے۔جس میں غنی کشمیری کی زندگی سے جڑے ایک غیر معمولی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اصل واقع یوں ہے کہ غنی جب گھر سے باہر جاتے تھے تو دروازہ کھلا رکھتے تھے اور جب گھر میں داخل ہوتے تو پھر درواز بند کردیتے تھے کسی نے اسکی وجہہ پوچھی تو غنی کشمیری نے بر ملا کہا:

درین خانه جز من متاعی کجاست

ترجمہ : اس گھر میں میرے علاوہ کوئی قیمتی چیز ہے کہاں؟

اقبال نے اس واقعہ کو یوں لفظی جامہ پہنایا ہے۔

قطعہ

به پاسخ چه خوش گفت مرد فقیر
فقیر و به اقلیم معنی‌ امیر

ز من آنچه دیدند یاران رواست
درین خانه جز من متاعی کجاست

غنی تا نشیند به کاشانه اش
متاع گرانی است در خانه‌اش

چو آن محفل افروز در خانه نیست
تهی تر ازین هیچ کاشانه نیست

اقبال

اقبال نے بھی میر تقی میر کی طرح کشمیر کے اس صاحب طرز شاعر کی تعریف میں کشادہ دلی اور فیاضی سے کام لیا ہے۔

شاعر رنگیں نوا طاہر غنی
فقرِ او باطن غنی، ظاہر غنی
اقبال
کہتے ہیں کہ صائب تبریزی جو غنی کشمیری کے ہم عصر تھے اور ایران میں ملک الشعرا کا خطاب سے نوازے جا چکے تھے جب ان کے پاس غنی کشمیری کا مندرجہ شعر پہنچا تو انہوں وہی رشکیہ کلمات کہے جو غالب نے مومن کے ایک شعر پر کہے تھے۔یعنی تم میرے دیوان کے بدلے یہ شعر مجھے دیدو۔ غنی کشمیری کا وہ قابل رشک شعر یہ ہے

حسن سبزی بخطِ سبز مرا کرد اسیر
دامِ ہمرنگِ زمین بود گرفتار شدم
طاہر غنی
یعنی تمہارے شاداب حسن و جمال اور خط و خال کی شادابی اور سبزے نے مجھے اسیر کرلیا دام ہمرنگ زمیں تھا اس لئے میں گرفتار ہوگیا یہاں صیاد کے” کامو فلیج” کی ترکیب اور حربے کا حسن استعمال ہوا ہے
camouflage tactus and technique
اکثر اوقات شکار کو اسیر کرنے کے لئے شکاری اردگرد کی زمیں کے رنگ سے ملتا جلتا جال بچھاتے ہیں یہاں حسن تحلیل کا جواب نہیں ۔
غنی کشمیری کا شعر بہت مشہور ہے ۔ بلکہ لافانی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں غنی کشمیری نے کشمیر میں استعمال کی جانی والی عام شکاریوں کی ترکیب سے استفادہ کیا ہے ۔ جابر حکمرانوں کو باز کہا ہے ۔یہاں باز کااستعارہ دیکھیں ہے
ایک شعر
کدام باز ندانم در آشیاں بندی است
کہ ہست حکم پرِ کاہ بال مرغان را
غنی کشمیری

ترجمہ: معلوم نہیں کہ کونسا شہباز، گھونسلا بنانے کی فکر میں ہے کہ فرومایہ چڑیوں کے پر نوچے جا رہے ہیں۔

غنیؔ روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُنَد چشمِ زلیخا را
غنی کشمیری
:ترجمہ
یعنی غنی یعقوب کی سیاہ بختی تو دیکھو کہ اسکے نور چشم (یعنی یوسف) نے زلیخا کی آنکھوں کو روشن کردیا۔

یہاں نور چشم سے ،یوسف اور یعقوب کی بینائی دونوں مراد ہیں ۔ یعقوب علیہ السلام نے رو رو کر نور چشم یعنی بینائی کھو دی تھی ۔ قدرت کی نیرنگی دیکھئے کہ یہ کھویا ہوا نور زلیخا کی انکھوں کا نور چشم بن گیا۔ نہایت ہی بامعنی اور بلند شعر ہے

طاہر غنی کی یہ غزل انکے کلام کا بہترین نمونہ ہے یہاں ہر شعر چشمہ ویری ناگ کی سی غزوبت اور چشمہ شاہی جیسی جودت کا آئینہ دار ہے۔ کہیں پر کوئی تصنع یا تکلف یا کوئی ملاوٹ نہیں ۔وفور شوق سے نکلے ہوئے الفاظ، دامن کوہ سے پھوٹتے ہوئے آب زلال جیسے معلوم ہوتے ہیں ۔
غنی کشمیری کی شاعری کی جڑیں اپنی خاک میں بہت گہرائی تک چلی گئی ہیں کشمیر کے غریب عوام اور دہقانوں Peasants کو فرومایہ چڑیاں اور پرندے جیسے استعارات کے ذریعہ بیان کیا ہے ہے۔ غنی کشمیری کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و جور کی تردید کرتے ہیں :
روزی ما می شود آخر نصیب دیگران
طالعِ برگشته همچون آسیاداریم ما

غنی کشمیری
ترجمہ
ترجمہ: ہماری روزی آخر دوسروں کا نصیب ہوگئی گویا ہمارے مقدر، چکی کی طرح پھر گئے ہیں ۔

غنی کشمیری زیر دستوں کمزوروں اور نحیفوں کا ترجمان اور زبان ہے

طاہر غنی نے اس عہد میں کشمیریوں کی بھکمری اور افلاس
Starving and poverty
کا اظہار خوبصورت علائم، استعارات اور اشارات کے ذریعے کیا ہے

گوئی کہ در تنورِ فلک قحطِ ہیزم است
تا اشتہا نسوخت نشد پختہ نانِ ما
طاہر غنی

ترجمہ : گویا آسمان کے تنور میں ایندھن کی کمی ہے وہ ہماری بھوک سے ہمارے لئے روٹیاں سینکتا ہے۔

ما را چو شمع مرگ بوَد خامُشی غنی
اظهارِ زندگی بزبان می کنیم ما

طاہر غنی
ترجمہ: شمع کی طرح خاموشی ہمارے لئے موت کے بمنزلہ ہے لہذا ہم زندگی کا اظہار اپنی زبان سے کرتے ہیں
نگردد شعر من مشهور تا جان در تنم باشد
کہ بعد از مرگ آهو نافہ بیرون میدهد بو را

طاہر غنی

یعنی میرے جیتے جی میرے شعر مشہور نہیں ہوئے۔ کیونکہ نافہ تو آہو کے مرنے کے بعد ہی اس کے پیٹ سے نکالا جاتا ہے

دیوان غنی کے1869 اور1887عیسوی والے نسخے جو نولکشور کی وساطت سے چھپے تھے اور ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہیں لیکن اتنے صاف پڑھے نہیں جاتے لیکن انکے حواشی اچھے اساتذہ نے لکھے ہیں لیکن
Divan-e- Ghani Kashmiri (Perisan) by Kesarri Dass Seth
Date of Publication 1931 AD

کیسری داس سیٹھ ، کا مذکورہ بالا نسخہ نہایت علمی اور مفید ہے اس نسخہ میں لکھے گئے حواشی غنی کی تفہیم میب میرے بہت مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ نسخہ آرکائیو ڈاٹ آرگ
(archive.org)
پر موجود ہے اور اسکا پی ڈی ایف ، مفت ہی دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ ریاستی کلچرل اکیڈمی نے بھی ایک محمد یوسف ٹینگ کی ادارت میں غنی کشمیری کاآگرا والا نسخہ شایع کیا ہے
ان نسخوں کے علاوہ ایران کے مشہور عالم حمد کریمی کا مرتب شدہ نسخہ بہت مستند ہے ۔ اور ہمارے لئے محکم حوالہ ہوسکتا ہے ۔ احمد کریمی صاحب لکھتے ہیں۔

” غنی با غنای طبع، در سراسر حیات خویش گوشهٔ درویشی را اختیار می کند و از صحبت حکام و تعینات زندگی دوری‌می گزیند . سادگی و بی پیرایگی و قناعت طبع و ذوق و حالی که از کیفیت این وارستگی‌ ملازم وجود وی پوده، در جای جای اشعارش نمودار است۔
فراغتی به نیستان بوریا دارم
مباد راه درین بیشه شیر قالی را
غنی کشمیری ”

ترجمہ غنی نے اپنی غنائے طبع سے گوشۂ درویشی اختیار کیا ۔ انہوں حکام اور تعینات زندگی سے کنارہ کشی کی ۔ سادگی ، بے پیرائگی، قناعت ، طبع و ذوق وحال اور ایسی ہی کیفیت انکے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی اور جگہ جگہ پر انکے اشعار سے یہ سب عیاں ہے۔
میں نے فراغت سے اس جنگل میں بوریا بچھایا ہے یہاں کوئی قالین کاشیر راہ نہیں پاسکتا۔ غنی کشمیری

بی شک غنی کا کلام سبک ہندی کی روایت کے مطابق ایہام اور ابهام بھرا پڑا ہے اس دور میں یہ صنعتیں عیوب سخن کے بجائے محاسن سمجھی جاتی تھی۔ مجموعی طور غنی کشمیری کا کلام سہل ممتنع ہونے کے بجائےبہت ہی مشکل اور مبہم ہے اور یہی مشکل پسندی ایہام اور ابہام انکا امتیازی طرہ بھی ہے صائب کے بعد غنی کشمیری کو تمثیل کا اہم ترین شاعر سمجھا جاتا ہے ۔ سچ یہی ہے کہ غنی عوام کے شاعر نہیں بلکہ انکا کلام خاص طبقہ ادباء کے لئے ہے ۔ اور اس قسم کے سہل ممتع شعر بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں مثلا

غافل دادیم دل به دستت
مارا یاد و تو را فراموش

غنی کشمیری

یعنی اے لاپروا ہم نے تجھے دل دے دیا۔ ہمیں یاد ہے لیکن تو نے ہمیں بھلا دیا۔
غنی کشمیری کے یہاں اگر کہیں روانی ہے بھی لیکن معنی آفرینی ٹیڑھی کھیر ہے

بالش خوبان دگر از پر است
شوخ مرا فتنه به زیر سر است

ترجمہ: دوسرے حسینوں کا سرہانہ پروں کا ہے لیکن میرے شوخ دلبر کے سر کے نیچے فتنہ ہے۔
مطلب ہے دوسرے حسینوں کے سرہانے پروں کے بنے ہوئے ہیں لیکن میرے شوخ معشوق کے سر کے نیچے فتنہ سو رہے ہیں یعنی اسکے سر اٹھاتے ہی فتنے عام ہوجائیں گے ۔

غالب نے طاہر غنی سے ذیادہ استفادہ نہیں کیا مگر غالب اور غنی کشمیری دونوں ہی مشکل پسندی کے قائل ہیں اقبال کا لہجہ اور اسلوب خطابی نوعیت کا ہے غنی کشمیری کے برخلاف اقبال کا ایہام اور ابہام سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا لیکن اس اختلاف نظر کے باوجود اقبال کے یہاں عرفی اور غنی کے لہجہ کی گونج موجود ہے اقبال کا لہجہ غنی کے بجائے عرفی سے ذیادہ ملتا ہے۔

شُد روشنم از شمع که در بزمِ حریفان
خاموش شدن مرگ بوَد اهلِ زبان را
غنی کشمیری

ترجمہ:یہ بات بزم میں شمع کی زبانی روشن ہوئی کہ خاموش ہونا اہلِ زباں کے نزدیک مرگ یعنی موت ہوتی ہے۔

لگتا ہے میرزا غالب نے یہی خیال اردو میں منتقل کردیا ہے ۔ اور غالب کے شعر میں” زبان اہل زبان”کے قرینہ سے غنی کشمیری کی طرف اشارہ موجود ہے میرزا کی تضمین سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی طاہر غنی کو اہل زبان اور بڑا شاعر سمجھتے تھے ۔

زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانئِ شمع
میرزا غالب

غنی کشمیری کا ایک خوبصورت
شعر:

دیوار و در شکستہ بُوَد خانۂ مرا
رنگش مگر ز رنگِ رخِ خویش ریختم
غنی کشمیری
ترجمہ: میرے گھر کے دیوار و در کی حال خستہ ہوچکی ہے اس کے رنگ کو مگر میں اپنے چہرے کے رنگ سے گراتا ہوں ۔

مطلب کہ جوں جوں میرے چہرے کی رنگت اڑتی ہے میرے گھر کے بام و در کی بھی شکست و ریخت سے دوچار ہوتے ہی۔ یا یو ں سمجھئے ہ شاعر کہتا ہے کہ میرے چہرے کے اثرات میرے گھر کی دیوار و در پر مرتب ہوتے ہیں اگر میں اداس ہوتا ہوں تو یہ اداسی میرے گھر کے بام و در سے برسنے لگتی ہے ۔

غالب کے تلازمہ "شکستِ رخِ رنگ” کو گریہ سے بدل کر اسی خیال کو یوں پیش کر دیا ہے ۔

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

غالب

بوَد دراضطراب از اهلِ عالم هر که کامل شد
طپیدن در بیانِ جمله اعضا قسمتِ دل شد
غنی کشمیری

ترجمہ :
اس جہاں میں ہر کامل شخص اضطراب میں مبتلا ہوا ۔ کیونکہ جسم کے اعضا میں ‘ تڑپنا” دل کی قسمت میں لکھا گیا۔
دل کو کامل شخص سے تشبیہ دی ہے اضطراب وجہہ تشبیہہ ہے
نہایت خوبصورت شعر ہے ۔

میردرد کے شعر میں غنی کشمیری کے شعر کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔

دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
میر درد

جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ غنی کشمیری وادى کشمیر کے پہلے قد آور فارسی شاعر ہوئے ہیں جن کی شہرت فارس تک پہنچنی اور اہل فارس انکے کلام کو مستند س جھتے ہیں اور غنی کی دیوان تہران سے شایع بھی ہوچکی ہے
غنی کشمیری ذہین و فطین شخصیت کے مالک تھے ۔ آج پونے چار سو سال گذر جانے کے بعد بھی انکا کا کلام ادبی دنیا میں ویسے کا ویسا ہی بامعنی و موزوں سمجھا جاتا ہے اور آئیندہ بھی کشمیر بلکہ بر صغیر میں فارسی شاعری کی بحث ان کے حوالہ کی محتاج رہے گی ۔
بقول غنی کشمیری
زین قیمت گران که بود گوهر مرا
ترسم که رنگ روی خریدار بشکند
غنی کشمیری

یعنی میرا موتی بہت قیمتی ہے مجھے ڈر ہے کہ وہ خریدار کے چہرے کا رنگ نہ اڑادے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے