شفق سوپوری عصری حسیت وادراک کےقدآورشاعر
تبصرہ و تنقید از غنی غیور
زنجیر میں الجھ گیا دامن جہاں تہاں
زخمی ہوئی ہے طوق سے گردن جہاں تہاں
ہر برگ پھل ہے نیزے کا ہر شاخ ہے کماں
گلشن میں ہےبہار کی پلٹن جہاں تہاں
شفق سوپوری
شفق سوپوری کے کلام نے مجھے نہ صرف محظوظ کیا بلکہ سخت متاثر کیا اور انکے اشعار،ہمارے عہد کے کرب کے خوبصورت اظہاریے ہیں اور تازگی سے لبریز ہیں ۔شفق سوپوری کے کلام میں کلیدی الفاظ اور استعارے انکے اپنے ماحول سے لئے گئے ہیں محزونی رنگ تقریباً بیشتر کلام میں نمایاں ہے لگتا ہے انہوں نے پیکر بدل بدل کر محزونی کیفیت کا بھر پور اظہار کیا ہے ۔پیڑ کی شاخ ہوا کے زیر اثر ہلتی ہے لیکن شفق سوپوری نے یہاں حسن تعلیل کی صنعت کو سلیقے سے برتا ہے –
کیا ہوا فاختاؤں کا وہ غول
جس کو شاخِ شجر پکارتی ہے
شفق سوپوری
شفق سوپوری کے رنگ سخن میں پانچ مخصوص کیفیتیں نمایاں ہیں :
۱: یاس و حرمان اور حزن و ملال
۲ :ہجر و فراق اور رنج و ابتلا
۳ : استعجاب و حیرت
۴: شکوہ و شکایت اور واسوخت اور بیزاری
۵ :روایتی تغزل اور مزاحیہ رنگ
۱: یاس و حرمان اور حزن و ملال:
پہلے ہم اسی کیفیت میں ڈوبے ہوئے اشعار اور ان سے متعلق بعض استعاروں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے
مثال ۱
شفق سوپوری کے یہاں آگ ،درخت ،دھواں ،رات اور سرمئی سمندر وغیرہ کاذکر ہوا ہے۔
یہ اشارے اور استعارے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں آخر یہ آگ کیا چیز ہے جو سب درختوں کو جلا دے گی اور ہم ان درختوں کا دھواں ہو کر اسی فضا میں تحلیل ہوجائیں گے۔بستیوں سے دھواں اٹھنا موجودہ حالات کی طرف اشارہ ہے اور چوٹیوں پر رات سلگنا ۔۔۔ سلگنا سے مراد دھواں دیتے ہوئے جلنا یہاں رات کا اندھیرا اور دھواں ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں یہاں شفق یاس اور حرمان میں ڈوبے نظر آتے ہیں
آگ لگنی ہے ان درختوں میں
ہم اسی آگ کا دھواں ہوں گے
دور بستیوں سے اٹھ رہا ہے دھواں
چوٹیوں پر سلگ رہی ہے رات
خواب کے سرمئی سمندر میں
میری کشتی ڈبو رہی ہے تو
زنجیر میں الجھ گیا دامن جہاں تہاں
زخمی ہوئی ہے طوق سے گردن جہاں تہاں
ہر برگ پھل ہے نیزے کا ہر شاخ ہے کماں
گلشن میں ہےبہار کی پلٹن جہاں تہاں
مزکورہ بالا شعر میں زنجیر،طوق غلامی کے زبردست استعارے ہیں لیکن جب ماحول سازگار نہ ہو تو خوبصورت نظارے بھی رنج غم ہی فراہم کرتے ہیں یہاں بہار کو پلٹن کہنا بلا کی جدت و بداعت ملاحظہ کی جاسکتی ہے
۲ :ہجر و فراق اور رنج و ابتلا کی کیفیت:
شفق سوپوری کے کلام ہجر و فراق کی کیفیت پر بہت سے اشعار ملتے ہیں جیسے ساربان ،اصل میں اونٹوں کے نگہبان یا مہار پکڑنے والے کو کہتے ہیں ۔ فارسی اور عربی میں ساربان اور حدی خوان اصطلاح رائج اردو میں اقبال نے استعمال کیا ہے
ای ساربان آهسته رو کآرام جانم میرود
وآن دل که با خود داشتم با دلستانم میرود
سعدی
ترجمہ:
اے ساربان! آہستہ چلو کہ میرا معشوق محمل میں سوار ہوکر تیرے پیچھےجا رہا ہے؛ اور جو دلِ عزیز میں اپنے پاس رکھتا تھا، وہ اسی کے ہمراہ جا رہا ہے۔یعنی اس کے قبضے میں ہے ذرا دھیان سے چلو
ساربانو کا تعلق اونٹوں سے ہوتا ہے اور اونٹ صحرائی جہاز ہوتے ہیں اور سفر کی سواریاں ۔ شفق نے سارباں کی اصطلاح کئی جگہ استعمال کی ہے۔
تیرے مایوس ساربانوں نے
دشت چھوڑا شکستہ جانوں نے
ہجر کے گم شدہ ٹھکانوں سے
کچھ تو آئیں گے سارباں لے کر
ہجر کی کیفیت پر اشعار:
نیچے دیے گئے اشعار میں اداس زمین، ملول ہوا، ہجر کا جنگل، یاد کی کھڑی فصلیں سب ہی تراکیب ہجر و فراق کے صدمہ یا دوری کی کیفیت ظاہر کرتی ہیں کہیں کہیں عشق مجازی اور حقیقی کی کڑیاں آپس میں ملتی بھی ہیں شفق سوپوری کا معشوق اردو کی اس روایت کے مطابق مذکر نہیں بلکہ مونث صیغہ کا حامل ہے
ع” پوچھتا ہے کدھر گئی ہے تو ”
انسانی زندگی کے حادثات بیشمار ہیں۔ہجرو فراق چاہے مجازی ہو یا حقیقی بھی ایک بڑا موضوع سخن ہے انہی حادثوں کی بابت کہتے ہیں :
اے مری یاد کی اداس زمین
کیوں مرا بوجھ ڈھو رہی ہے تو
اے مرے ہجر کی ملول ہوا
کیوں درختوں میں رو رہی ہے تو
چاند نکلا تو ہجر کا جنگل
پوچھتا ہے کدھر گئی ہے تو
۳ : استعجاب و حیرت کی کیفیت:
شفق سوپوری کے اشعار میں استعجاب و حیرت کی کیفیت ملتی ہے اس دنیا کو کشت ویران کہا ہے اور خود انسان کو حوادث کے بیج بونے والا کسان ہے۔۔۔
کشتِ ویران میں حوادث کے
بیج بوئے ہیں ہم کسانوں نے
شفق سوپوری
یہاں زمیں و آسماں کی تنسیق اور ہمآہنگی کا بیان ہوا ہے Coordination کی بات بھی کی ہے پیرایۂ اظہار کسقدر موثر وشفاف اللہ اللہ
ہم زمینوں کے راز تھے لیکن
ہم کو کھولا ہے آسمانوں نے
مٹی کی محبت اور وطن سے عشق پر خوبصورت گہری رمز والا شعر دیکھیں :
آخر ِکار عشق نے یارو
ہم کو جوتا کسان کے ہل میں
۴: شکوہ و شکایت اور واسوخت اور بیزاری کی کیفیت
شفق سوپوری کی شاعری میں معشوق سے گلہ و شکوہ کے علاوہ بیزاری کا بیان واسوخت کی سرحد سے ملتا ہے اردو میں واسوخت کی ابتدا میر تقی میر سے ہوئی تھی شفق کی یہاں یہ رنگ سخن بھی ملتا ہے وہ اپنے معشوق کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں اور اسکو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں سرخ کاغذ چبھانے اور اُلّو بنانے کی بات بھی کرتے ہیں ۔
واقعی خون تھوکتی ہے یا
سرخ کاغذ چبھا رہی ہے تو
حسن کی شاخ پر بٹھا کر اب
کس کو الّو بنا رہی ہے تو
۵ :روایتی تغزل اور مزاحیہ رنگ:
روایتی غزل عشق کی ہی پیدا کردہ کیفیات اور معاملات کا احاطہ کرتی ہے معشوق کی روگردانی اور اعراض، عاشق پر قہر ڈھاتا ہے تنہائی و فراق کے عالم میں گلے شکوے سب روایتی غزل کے خدو خال ہیں لیکن شفق سوپوری نے مردہ استعاروں سے گریز کیا ہے یہاں دیوارِآئینہ دلدل وغیرہ تراکیب اور کلیدی الفاظ میں تازگی ملاحظہ کریں
ہم جہاں تیری جستجو میں گئے
ساتھ دیوارِآئینہ آئی
میں نہ کہتا تھا اے دلِ ناداں
فرق کر دوست اور دشمن میں
تونے پھینکا تھا اپنا دوپٹّا
میں نے آواز دی تھی دلدل سے
وہ تری یاد کے پرندے آج
اڑ گئے میرا آسماں لے کر
کہیں کہیں تغزل کے لب ولہجہ کے علاوہ مزاحیہ رنگ کے اشعار بھی ملتے ہیں :
آج کیوں اینٹھ کر رضائی کو
مورچہ سا بنا رہی ہے تو
لیٹ کر اوندھے منہ کنارے پر
ریت سے کیا بنا رہی ہے تو
کیسی الجھن میں درزی کی بیٹی
خود کو دھاگا بنا رہی ہے تو
ہائے میرے پرانے کپڑوں سے
آج تکیہ بنا رہی ہے تو
تو کسی اور راستے کی طرف
جارہی ہے نکل کے ہوٹل سے
تجھ کو میٹرو میں چھوڑ کے میں نے
جیسے سپنے جوئے میں ہارے تھے
شفق سوپوری
غالب نے معشوق سے دھول دھپے کھائے تھے
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
غالب
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
غالب
لیکن شفق سوپوری نے پورا واقعہ نہیں بیان کیا البتہ ایک دلچسپ واقعہ انکے ساتھ پیش آیا- یا پھر کوئی اختراع ہے جب انہوں نے سر میں بوتل سے چوٹ کھائی شعر
یاد ہے ایک شام نشے میں
تونے مارا تھا مجھ کو بوتل سے
شفق سوپوری
"ہم مابعد جدیدیت کے عہد میں رہ رہے ہیں اس سے کوئی راہ مفر نہیں یہ تخلیقیت کا عہدِ جشن ہے ”
گوپی چند نارنگ
اس میں کوئی شک نہیں کہ مابعد جدیدیت کے جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اس ادبی گروہ بندی کی کوئی گنجائش نہیں اور اس عصر کی شعری روایت ہر قسم کی گروہ بندی مذہبیت ، علاقیت وغیرہ کی ردّ تشکیل سے فعال روایت بن چکی ہے – آزاد تخلیقیت اور آزاد مکالمہ اس نئے عہد کی زندہ روایت طرۂ امتیاز ہے ۔
نئے عہد کی تخلیقیت انسانی آگہئ عشق اور عشق آگہی کی بلند چوٹی ہے بقول کئر گارڈ:
"اپنی انفرادیت کے ذریعے خود کو پہچانے کا مطلب ہےآدمی اپنے فیصلے خود کرے۔”
بے شک شفق سوپوری نے اپنے خیالات کا اظہار بھرپور آزدی سے کیا ہے اور مابعد جدیدیت کے بعد نئے شعرا کی پہلی صف میں انکا شمار ہوتا ہے انہوں نے روایت کے اندر سے ایک نئی راہ سخن نکالی ہے وہ ادبی روایت سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور الگ پہچان بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں
آخر میں شفق سوپوری کی بعض جدت طرازیاں ملاحظہ کریں :
کیا چھلاوا ہے سانپ کے پھن کا
اس کی گردن پہ سبز ٹیٹو ہائے
میں جب بھی کہیں چتکبرے سانپ دیکھتا ہوں مجھے شفق سوپوری کا یہ شعر یاد آجاتا ہے
بانسری کی ملول طرزوں پر
ہم نے غم کے شلوک گائے ہائے
کیا بگاڑا تھا عشقِ بارودی
کیوں پرخچے مِرے اڑائے ہائے
شفق سوپوری عصری حسیت اور ادراک کےشاعر ہیں اور اس کی کئی جہتیں ہوسکتی ہیں عموماً عصری حسیت کا تعلق سماجی تہذیبی اور ثقافتی حالات سے ہوتا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ کسی بھی عہد انسانوں کے محسوسات اور ادراکات ایک جیسے نہیں ہوسکتے اس لئے عصری حسیت کسی فرد کے کسی مخصوص عصر میں محسوسات و ادراک کو بھی کہا جاسکتا ہے آج اس عصر میں جنسی ناآسودگی، مالی بحران ،اخلاقی اقدار کا زوال وغیرہ گویا یہ تمام مسائل بھی عصری حسیت کے دائرہ میں آتے ہیں یہ عصر اقرار کے بجائے انحراف کی حسیت کا حامل ہے انسان ہر جگہ trauma یعنی صدمہ سے دوچار ہے انسان ایک طرف حالات و واقعات سے متصادم دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف وہ انکی زد پر مصدوم traumatized بھی دکھائی دیتا ہے شفق سوپوری نے ان صدمات کے اظہار کے لئے غم جاناں کو حربہ یا آلۂ کار استعمال کیا ہے میرے خیال میں شفق سوپوری کی شاعری عصری حسیت کے ذیل میں ہی آتی ہے۔
یہاں پر انکے پہلے مجموعہ جات سے بعض اشعار نقل کئے جاتے ہیں انکے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے زمانے اور اسکے حالات و واقعات پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے،
یہاں کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ظفر اقبال کے بعد شفق سوپوری نے اردو زبان میں بیشمار الفاظ کو آبرو و مقام بخشا ہے
برنجی یا لوہے کی میخ پر شعر:
برنجی پاؤں میں اس کے پڑی ہے
بچارے موچی کو گالی پڑی ہے
لہرا رہی ہیں کھیت گندم کی بالیاں
اور پہرے پر بجوکے ہیں لے کر نالیاں
عجب ہے شعبدہ میرے بھی قاتل کا
سیہ ہیں ہاتھ لیکن آستیں روشن
(دشت میں دور کہیں :شعری مجموعہ سے)
گرم خیال بگولے بن کر اٹھتے ہیں
میرے لئے گویا میرا سر ہے صحرا
ایضاً
ایک خوبصورت شعر جو ہمارے عصر کے سنگین مسئلہ کا احاطہ کرتا ہے ۔ بیٹے بیٹیاں پڑھ لکھ کر دور دراز شہروں میں چلے جاتے ہیں اور ماں باپ اپنے ملک یا دیہات میں کہنسالی کے جوکھم اٹھاتے اٹھاتے مرجاتے ہیں
شففق سوپوری نے ایک لازوال شعر کہا ہے
وہ اپنے گھر میں رہا، اپنی ماں کی پاس رہا
ہزار درجہ مرا بھائی مجھ سے بہتر ہے
کشمیری تہذیب میں کبوتروں سے محبت اور انکا دانہ ڈالنا پرانی روایت ہے اس کی جڑیں صوفی روایت میں پیوست ہیں آج بھی درگاہوں کے کبوتروں اور حرم کے کبوتروں کو یکساں مبارک سمجھا جاتا ہے اور ان جگہوں پر لوگ انکا شکار نہیں کرتے ہیں
شفق سوپوری کا شعر دیکھیں:
ہمارے آستانوں کی چھتوں پر
کبوتر بھوک سے مرنے لگے ہیں
شفق سوپوری
(ریشم سراب خواب :شعری مجموعہ سے)
یہ شعر پڑھ کر مجھے ولیم بلیک کاشعر یاد آگیا
A dog starvd at his Masters Gate. Predicts the ruin of the State.
(Auguries of Innocence by Willium Blake)
میں اس کو باز کے پنجوں سے چھین کر لایا
مجھے لگا کہ مری جاں ہے اُس کبوتر میں
شفق سوپوری
شفق سوپوری کو یہ کبوتر دوستی کہئے یا مظلوم کی حمایت یا غریب نوازی مبارک ہو
شفق سوپوری نے کشمیر کے حالات پر کنایوں میں بات کی ہے:
یہ جسم ہے یا خانہ بدوشوں کا
کوئی الاؤ جلتا ہے چلتا ہے
شفق سوپوری کے مذکورہ بالا شعر میں خانہ بدوشوں کا غم جس منفرد انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسے ہی اور بھی بہت سے اشعار انکی وسعت فکر و بلند پروازی کا پتہ دیتے ہیں
گولی چلی لیکن میں دھواں
اب بندوق کی نال میں ہوں
سانپ بانبی میں چھپ گئے لیکن
مجھ کو چمگادڑوں نے گھیرا ہے
شفق سوپوری