پونچھ راجوری کا ادبی منظر نامہ
قسم اول
تحقیق و تبصرہ از غنی غیور

جنوری ۱۹۶۸ عیسوی تک راجوی بھی پونچھ ضلع کا حصہ تھا۔ اس وقت کے ضلع پونچھ میں اردو کا فروغ کہیں بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا۔ اس سے پہلے شاعری کم اور اوٹ پٹنگ ذیادہ لکھا جاتا تھا۔راجہ پونچھ کے دربار سے منسلک جج وغیرہ لاہور( پنجاب)سے پڑھ کر آتے تھے۔۱۹۴۷ عیسوی سے پہلے پونچھ راجوری کا براہ راست تعلق کوٹلی اور میر پور سے تھا ۔ ۱۹۴۷عیسوی سےپہلے پونچھ میں ویکٹوریا ہائی اسکو ل اور اسلامیہ پائی اسکول تھے ۔ ویکٹوریا ہائی اسکول ۱۹۴۷عیسوی میں بند کردیا گیا تھا ۔ لہذا پونچھ راجوری کے مقابلے شروع ہی سے تعلیم کامرکز رہا ۔ پونچھ میں ہائی اسکول کھلنے سے پہلے پرانے تعلیمی مراکز ان کوٹلی اور میر پورتھے-جہاں سےمزید پڑھائی کے لئے لاہور جانا پڑتا تھا۔ اردو میں امام دین، شیخ سجاد احمد وغیرہ مذاحیہ چٹکلے، اور تک بندی عوام میں مشہور تھی ۔باضابطہ شاعری کا آغاز پرانے اساتذہ میں دینا ناتھ رفیق نے ہی کیا۔ رفیق ،کرشن چندر کے استاد تھے۔ مستند حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب کرشن چندر نے شعر و شاعری شروع کی تو اپنا ٹوٹا پھوٹا کلام دینا ناتھ رفیق کو دکھایا ۔ دیناناتھ رفیق نے کرشن چندر کے منہ پر ایسا تھپڑ رسید کیا کہ اُس کے اندر کا شاعر ہمیشہ کے لئےافسانوں میں کھو گیا۔ بہر حال رفیق نظمیں خوب کہتے تھے۔ "اسکے تھوڑا بعد چراغ حسن حسرت اور تحسین جعفری وغیرہ نے پونچھ میں معیاری شاعری کی۔راجوری سے اس دور کا کوئی معتبر نام نہیں ملتا ۔
پونچھ راجوری میں افسانہ نگاری کا چلن بہت کم ہے۔ کرشن چندر کا پونچھ سے کچھ تعلق رہاہے ۔ حیرت کی بات ہےکہ ہم لوگ کرشن چندر کو لوگ پونچھ کا افسانہ نگار سمجھتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں انہیں پونچھ سے والہانہ محبت تھی اور انہوں نے اپنے افسانوں میں جابجا پونچھ کے دلفریب مناظر کا ذکر کیا ہے۔البتہ پونچھ راجوری کے مقامی افسانہ نگاروں جگن ناتھ ٹھاکر پونچھی(۱۹۲۲ تا ۱۹۷۴ عیسوی) کا فی الحال کوئی جواب نہیں۔ ٹھاکر پونچھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ۔سماجی ناہمواریوں کے موضوعات کو افسانوی قالب میں ڈھالتے رہے ۔ انکے افسانوی مجموعے ، چاندنی کے سائے، یادوں کے کھنڈر، وادیاں اور ویرانے، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے اور ڈیڈی وغیرہ یادگار اور ادبی کارنامہ نئی نسلوں کے حوالے کر گئے ہیں۔ انکے بعد بعض خواتین وحضرات مثلاََ زنفر کھوکھر، کے ڈی مینی، ڈاکٹر رضوانہ شمسی وغیرہ اردو افسانے لکھے ہیں۔ پونچھ سے محمد ایوب کے افسانوی مجموعہ شاہین کے بعد راقم عبدالغنی جاگل کا افسانوی مجموعہ ” حکایت نیم شب”شایع ہوچکا ہے ۔لیکن مجموعی پونچھ راجوری میں افسانہ نگاری کی طرف ذیادہ دھیان نہیں دیا گیا ۔شاید ادیبوں کومعلوم ہی نہیں یہ صدی فکشن کی صدی ہے ۔

۱۹۴۷ عیسوی یعنی آزادی کے بعد تمام شعبوں میں ترقی ہوئی تعلیم اور آمد و رفت کا نظام سڑکیں پُل بننے لگے۔مقامی لوگوں کو سرکاری نوکریاں ملنے لگیں عوامی نمائیندے منتخب ہونے شروع ہوئے۔ سیاسی سر گرمیوں نے عوام میں جاگیرتی کی لہر پیدا کی ۔ دیہاتی لوگ بھی پڑھائی کی طرف راغب ہوئے۔ ان دنوں مقامی مکاتب کے مقامی اساتذہ ذیادہ تر مڈل پاس ہوتے تھے ۔ پڑھے لکھے اساتذہ کشمیر سے آتے تھے۔ یا پھر جموں سے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۸۰ عیسوی کے بعد تک چلتا رہا ۔ رفتہ رفتہ بعض مقامی اساتذہ عام تعینات ہوگئے اور ۱۹۸۰ تا ۱۹۹۰ عیسوی سفارشی لوگ بھی روزگار کے چکر میں اساتذہ بن گئےنتیجۃً تعلیم کا معیار پست ہوتا گیا۔اور تعلیم میں پرائویٹ سیکٹر نے اپنی کارکردگی بہتر ثابت کی ۔ کئی معیاری پرائویٹ اسکول قائم ہوئے۔ جب کسی قوم کو فراغت حاصل تو شاعروں کے کھیپیں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں ۔ حتی کہ ادب کے فروغ کےنام کہیں کہیں جعلی ادیبوں اور شعرا نے مواقع کا فائدہ اٹھایا ۔ لیکن اسکا مطلب ہر گز نہیں سچے ادیبوں اور شعرا کا فقدان ہے ۔ خطۂ پیر پنجال میں اچھے اچھے قلم بھی موجود رہے ہیں اور تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی کچھ کان ہوا ہے ۔ راقم کی نئی اردو غزل شائع ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ رواں دواں ہے ۔ بقول شاعر :
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

پونچھ راجوری کے مقتدر شعرا کا مختصر ترین ذکر کچھ یوں ہے :

۱:چراغ حسن حسرت

۱۹۰۴ تا۱۹۵۵عیسوی

نقد جاں لے کر چلیں اس بزم میں
مصر کے بازار کی باتیں کریں
ان کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں
سایۂ دیوار کی باتیں کریں
چراغ حسن حسرت

چراغ حسن حسرت کے دادا فقیر چند کپور کھتری تھے۔جو بعد میں بدر الدین ہوگئے۔ چراغ حسن پونچھ میں پلے بڑھے- اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شروع ہی سے ذہین و فطین تھے۔
۱۹۲۴عیسوی کے آس پاس پنجاب یونیورسٹی سے بی اے پاس کی، عصر جدید، اخبار ( کلکتہ ) سے منسلک ہوگئے۔پھر ابولاکلام سے رسم و راہ پیدا ہوئی تو "پیغام” اخبار میں کام کیا اور پھر لاہور منتقل ہوگئے اور "زمیندر "( لاہور) کی ادرات کی۔ کولمبس اور سند باد جہازی کے نام سے فکاہیہ کالم لکھتے رہے ۔ چراغ حسن حسرت پونچھ کے پہلے بڑے ادیب اور صحافی تھے۔جو اپنی حسن کارکردگی کے باعث برصغیر میں مشہور ہوئے ۔ چراغ حسن حسرت غزل تو خوب کہتے تھے۔ انکا تھوڑا ہی کلام ملتا ہے ۔ غزل کے علاوہ وہ مزاحیہ شعر بھی خوب کہتے تھے۔
انکو مہتاب دین کہتے ہیں۔
سر پہ ہیں بال تین کہتے ہیں
۔۔
میں پونچھ کی مسکان میں ہم رنگِ گدا ہوں
کیا شانِ الٰہی ہے کہ ٹٹّو پہ لدا ہوں
۔۔۔۔۔
۲تحسین جعفری
۱۹۰۸تا ۱۹۹۶ عیسوی
تحسین جعفری ۱۹۰۸ عیسوی میں پونچھ کے منگناڑ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور افغان قبیلے یوسف زئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اصلی نام سرفراز حسین خان ولد محمد خان قلمی نام تحسین جعفری اعلی پایہ کے عقیدتی شاعرتھے۔ زندگی بھر مرثیے اور سلام ہی لکھے۔”سفینۂ نجات”مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔ جس میں منظومات شامل ہیں۔شاعری میں مذہبی روایات سے پاؤں باہر نہیں رکھتے ہیں ۔ ۱۹۴۷عیسوی میں ہجرت کرکے راولپنڈی جا بسے اسی سال انکے فرزند ارجمند ڈاکٹر مقصود جعفری کی ولادت ہوئی ۔ مقصود جعفری اعلی تعلیم یافتہ اور مشہور کتاب،سانگز آف ہیومینیٹی کے مصنف ہیں ۔ کشمیری ،گوجری اور سرائیکی میں بھی اشعار کہتے تھے۔ انکی یہ حمد مشہور ہے۔

تری ذات پاک ہے اے خدا تری شان جلّ جلالہ ہُو
ترا نام خالقِ دوسرا تری شان جلّ جلالہ ہُو
تو رحیم ہے تو کریم ہے، تو علیم ہے تو عظیم ہے
تری ذات فہم سے ماورا،تری شان جلّ جلالہ ہُو

ہر دم تیرا خیال تیری جستجو رہے
سانسوں میں تُو بسے مِری رگ رگ میں تُو رہے
تیرے سوا کسی کے نہ در پر جُھکے جبین
مقصود میرا تُو ہو تیری آرزو رہے

غزل

عارض سیمیں پہ خم زلفِ رسا ہونے ہونے تو دے
جس پہ سب مرتے ہیں پیدا وہ ادا ہونے تو دے

دل کے آئینے میں آئے گی نظر سب کائنات
پاکبازی کی ذرا اس پر جلا ہونے تو دو

رازِ ہستی تجھ پہ ہوجائے گا خود ہی آشکار
نورِ حق سے خانۂ دل کی ضیا ہونے تو دے

کلفتیں مٹ جائیں گی سب دور ہوگا رنج و غم
اپنے قلبِ زار کو درد آشنا ہونے تو دے

ضو فشاں شمعِ امامت ہوگا تحسیں صبح و شام
ظلمتِ شب کو ذرا سیماب پا ہونے تو دو
تحسین جعفری
۔۔
4
۳:حسام الدین بیتاب
(۱۹۳۰ تا ۲۰۲۰عیسوی

حسام الدین بیتاب سرنکوٹ کے رہنے والے تھے اور ۱۹۴۷عیسوی کے بعد اردو شاعری شروع کی ۔ بیتاب ایک حساس اور بیدار دماغ شخصیت کے مالک تھے۔سماجی اصلاح میں لگے رہتے تھے ۔ خوش خلق اور ہمدرد انسان تھے ۔ انکے دو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔انکی شاعری پر جموں یونیورسٹی سے محترمہ گل اکثر نے ایم فل بھی کی ہے ۔ دامن ِ شب شعری مجموعہ ۲۰۰۷ عیسوی میں منظر عام پر آیا ۔ اسکے بعد فلاحی مضامین لکھتے رہے ۔انکے دو شعر بہت مشہور ہیں ۔
ڈوبتے دیکھا ہےروز میں نے اس کو دوستو
اس لئے پوجا نہیں سورج کو چڑھتا دیکھ کر
کاٹنے دوڑے ہیں سارے شہرکے کتے مجھے
ہاتھ خالی، شب گزیدہ اور تنہا دیکھ کر
حسام الدین بیتاب
۔۔۔۔

۴:محمود الحسن محمود
۱۹۳۷ تا۲۰۱۸ عیسوی

مسعود الحسن مسعود اور محمود الحسن محمود،دونوں سگّے بھائی تھے اور چراغ حسن حسرت کے بھانجے تھے ۔ پونچھ میں ادبی سرگرمیوں روح رواں رہے ۔ مسعود الحسن مسعود جلد ہی رخصت ہوگئے ۔ البتہ محمود الحسن محمود نےلمبی عمر پائی ۔کلاسیکی طرز کے شاعر تھے۔ انکا ایک شعر مشہور ہے۔

عقیدت کی دلیل اک ہم بھی اپنی پیش کرتے ہیں
خدا کس کام کا جب کام سب درویش کرتے ہیں
محمود الحسن محمود

"محمود الحسن محمود کو والد متنوع اور ہمہ طبیعت سے صرف شاعری کا ذوق بہرہ میں ملا۔ اچھے ماحول میں نشو ق نما پائی۔ نظم اور قطعہ لکھتے ہیں غزل سے انہیں لگاؤ نہیں رہا”بحوالہ کشمیر میں اردو جلد سوم صفحہ ۱۲۸
حیرت کی بات ہے جو سروری نے یہ لکھا ہے ” غزل سے انہیں لگاؤ نہیں حالانکہ انکی نظم بھی تو غزل مسلسل ہی ہے شایدیہ نکتہ کسی کو سمجھ میں آجائے ۔ محمود الحسن محمود غزل کے ہی شاعر تھے ۔ انکی نظموں پر بھی غزل کا شبہ ہوتا ہے ۔

کلام منظوم

مرتّب سادگی سے کی کتابِ زندگی میں نے
بجھائی روح کی علم و ادب سے تشنگی میں نے

مجھے بخشی گئی تھی مختصر سی زندگی لیکن
ادب کے فیض سے پائی حیاتِ دائمی میں نے

کروں اس بات پر میں فخر جتنا حق بجانب ہے
کہ پائی ہے وراثت میں متاعِ شاعری میں نے

غزل کی چاشنی افکار میں نہ کر سکا پیدا
ہے پھر بھی باز اس پر کی دلوں کی رہبری میں نے

سخن گوئی سے مطلب رہبری محمود ہے مجھ کو
فقط تفریح کا حاصل نہ سمجھی شاعری میں نے
محمود الحسن محمود
۔۔
۔۔۔۔
۵:مسعود الحسن مسعود

مسعود الحسن مسعود خاص پونچھ شہر میں رہتے تھے ۔ رند اور لا ابالی شخصیت کے مالک تھے ۔ مسعود الحسن مسعود مذہبی رواداری اور آزاد روی کے علمبردار nonconformist تھے۔ لہذا پونچھ بازار ہر طبقہ کے لوگ انکی آؤ بھگت کرتے تھے ۔ مولوی نامہ نظم مشہور ہے۔
سُن ذرا اے ناخدائے مولوی
مولوی نامہ برائے مولوی

محمود کے چھوٹے بھائی، مسعود الحسن مسعود، بھی شعر و سخن کا مذاق رکھتے ہیں ۔ پونچھ میں ولادت ہوئی اور سن ولادت ۱۹۴۳ عیسوی ہے۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد نلازمت میں داخل ہوگئے۔ ادب اور شاعری سے لگاؤ ان کی خاندانی خصوصیت ہے۔ چنانچہ مسعود طالبِ علمی کے زمانہ سے شعر کہہ رہے ہیں ۔ غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کر رہے ہیں”
بحوالہ کشمیر میں اردو جلد سوم از عبدالقادر سروری صفحہ ۱۲۸ ۔”
غزل
نہ ہو گمراہ اے دل گمرہی اچھی نہیں ہوتی
خدا سے ڈر کہ اتنی خود سری اچھی نہیں ہوتی

خیال اچھا نہیں جو مشق تک محدود رہ جائے
جو معنی وا نہ ہو وہ شاعری اچھی نہیں ہوتی

وبالِ جان بن جاتی ہے بڑھ کر حدِ امکان سے
ذیادہ دوستوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی

جبیں سائی نہ کرنا واں مفاداتِ ذات کی خاطر
کہ یہ مطلب براری بندگی اچھی نہیں ہوتی

ہمارا تجربہ ہے عشق میں مسعود برسوں سے
نہیں ہوتی بتوں سے دل لگی اچھی نہیں ہوتی

مسعود الحسن مسعود نے قومی یکجہتی اور سماج کے کئی پہلوؤں پر نظمیں کہی ہیں ۔ حب الوطنی پر کہی گئی ایک نظم کے دو شعر درج ذیل ہیں ۔
ایکتا اغیار کی سازش سے مر اسکی نہیں
کوئی طاقت ہند کو مرعوب کر سکتی نہیں
اقتضا ہے وقت کا ہندو مسلماں ایک ہوں
ایک ہوں ہم سب ارادے بھی ہمارے نیک ہوں
مسعود الحسن مسعود
۔۔۔
خدائے سخن غالب کی زمیں میں ایک غزل کے دو اشعار:

اردو زباں پھر تجھے ملنے کے ہم نہیں
ہم ہیں تیرا فروغِ ساماں کئے ہوئے
مسجد کی کھڑکیوں سے خدا جھانکنے لگا
مُسلم کہاں ہیں گھر مِرا ویراں کئے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۶:غلام نبی شہباز راجوروی
۱۹۴۰ تا ۲۰۲۱ عیسوی
شہباز راجوروی نہ صرف کشمیری کے بلند پایہ کے شاعر تھے بلکہ اردو اور گوجری میں بھی خوبصورت غزلیں کہی ہیں ۔ کشمیری شعری مجموعہ طواف ، کے علاوہ "انداز نظر”مضامین وغیرہ بھی لکھے ۔ کشمیری میں انعام یافتہ شاعر تھے
نمونۂ کلام :
اذاں کے بعد دعا کو جو ہاتھ اٹھائے وہ
امام اپنی نمازیں بھی بھول جاؤں میں

نہ اکتسابِ نور ہے اندھے کے بس کی بات
گرچہ تمام رات ہو آنگن میں آفتاب
شہباز راجوروی
۔۔۔۔
۷:فدا راجوروی
۱۹۴۱ تا۲۰۲۰ عیسوی
ہمارے جھونپڑے اکثر جلا کر وہ یہ کہتے ہیں
کہ آدابِ جہاں بانی میں ایسا ہوتا رہتا ہے
فدا راجوروی
۱۹۴۱تا ۲۰ جون ۲۰۲۰ عیسوی
عبدالرشید فدا موضع پوشانہ سرنکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پتھر پتھر آئینہ ۲۰۱۱ء اور شہرِ دل ( اردوکشمیری پہاڑی اور گوجری )،کشمیری میں تین شعری مجموعوں کل ملا کر تیرہ کتابوں کے مصنف و مولّف ہیں ۔ مزید دو غیر مطبوعہ شعری مجموعے، شش جہات اور قلم برداشتہ مسودے میری نظر سے گذرے ہیں۔
فردِ عصیاں میری دُھل گئی خود بخود
میں جو لایا گیا رو بروئے نبی
اخلاص کی زمین پہ جب ہو نہ استوار
ہر شاخ نامراد ہے نخلِ مُراد کی

ہوا کی برہمی ہے اور میں ہوں
بجھی ہرروشنی ہے اور میں ہوں

کہاں اس شہرِ شر سے بچ کے جاؤں
سیاست پروری ہے اور میں ہوں
فدا راجوروی

۸:خورشید بسمل
۱۹۴۷ عیسوی
پھر ترا کام رہے گا مرے سائے کی تلاش
میں اگر شہرِ تمنا سے گذر جاؤں گا
خورشید بسمل

تھنہ منڈی راجوروی سےتعلق رکھتے ہیں۔ پونچھ راجوری کے کہنہ مشق شعرا میں سے ہیں ۔ شعری مجموعہ” ابر نیساں” منظر عام پر آچکا ہے۔ محامِد،نعوت قطعات کے علاوہ غزلیں کہتے ہیں ۔ الفاظ و خیالات کلاسیکی ادب سے ہی مستعار لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ خورشید بسمل کی بعض شاعری میں عقیدت کی بو باس رچی بسی ہوئی ہےاور اثر آفرینی سے مالامال ہے ۔

عشق و وفا کے تذکرے پارینہ داستان
صحرا رہے نہ قیس ہی، شیریں نہ کوہکن

چہروں کے رنگ روپ پہ بسمل نہ جائیو!
جل بُھن چُکے ہیں ہی اندر سے گُل بدن
خورشید بسمل
۔۔۔

۹:شیخ سجاد پونچھی
۱۹۴۶ عیسوی
غم حیات کی تفسیراس میں رہنے دو
یہ گھر ہے زخموں کا ہر تیراس میں رہنے دو
ازل سے عشق تو اس کی جفا کاعادی ہے
یہ جور و کرب کی شمشیر اس میں رہنے دو
شیخ سجاد پونچھی

شیخ سجاد کا تعلق پونچھ خاص شہر سے ہے ۔جیو گرافی کے لکچرار رہے پھر گوجر ہاسٹل پونچھ کے وارڈن اور بطورپرنسپل ریٹائر ہوئے۔ اردو ، گوجری اور پہاڑی کے قلمکار ہیں۔ اردو میں دو شعری مجموعے، فصیلیں بولتی ہیں اور سمندر آشنا شایع ہوچکےہیں

عجب گھٹن ہے نحوست ہے مفلسی ہے مگر
حسین چاند بھی ان جھونپڑوں میں پلتے ہیں

وہ آسماں کی بلندی میں گھر بناتے رہے
زمیں سے رشتہ بھی اُن کا بہت ہی گہرا تھا

ہم خوابوں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں
کتنا اُلٹا خواب ہمارا ہوتا ہے
سجاد پونچھی
سجاد پونچھی پرانے اساتذہ اور نئے عہد کے شعرا کی درمیان کی مضبوط کڑی ہیں ۔ سجاد پونچھی دینا ناتھ رفیق کے شاگرد ہیں ۔ سرون ناتھ آفتاب ،گرداری برق اور شو لال رینہ آزاد وغیرہ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ ۱۹۸۰ تا ۲۰۰۰ عیسوی کے درمیان کی دو دہائیوں میں پونچھ میں سجاد پونچھی نے متعدد مشاعرے کروائے ۔ جن میں بشیر بھٹ اور خورشید کرمانی جیسے شعرا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
سجاد پونچھی کی ایک اور غزل

اور کہاں تک چلنا ہوگا کیا معلوم
کس بھٹّی میں جلنا ہوگا کیا معلوم

بچّہ تو معصوم سدا ہی ہوتا ہے
کس گودی میں پلنا ہوگا کیا معلوم

میرے تیرے ملتے جُلتے سانجھے رنگ
کس کو رنگ بدلنا ہوگا کیا معلوم

شہرت تو اک ابر کا ٹکرا ہوتا ہے
کس سورج کو ڈرنا ہوگا کیا معلوم

کشمیر بیچاری کیا بولے گی اب سجّاد
کتنا خون ابلنا ہوگا کیا معلوم

شیخ سجاد پونچھی
۔۔۔۔
۱۰:خوشدیو مینی
۱۹۴۷عیسوی
جب اڑانوں کے موسم گذر جائیں گے
پھر یہ غافل پرندے کدھر جائیں گے

ریت ہی ریت رہ جائے گی دور تک
تیز دریا تو چڑھ کر اتر جائیں گے
خوشدیو مینی

خوش دیو مینی المعروف کے ڈی مینی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ جو بیک وقت ادیب، صحافی، شاعر، محقق افسانہ نگار اور مورخ ہیں ۔ پونچھ راجوری بلکہ ریاست کے پرانی تاریخ تمدن پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔صوفیوں صافیوں کی تعلیمات کے مبلغ ہیں۔سیاسی مذاکرے،سیریلز بھی لکھے ہیں۔صوبہ جموں کی تمدنی تاریخ ، انگریزی میں پیر پنجال ریجن،
پونچھ دی بیٹل فیلڈ مشہور کتابیں ہیں۔انکی ۲۱ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔” یاد ہے تم کو” مجموعہ میں انکی اردو، پہاڑی اور گوجری بھی نظر سے گذری ہے۔
غزل
وقت سے ٹوٹ کے اس راہ سے گذرا سورج
میں نے پھر رات کی گہرائی میں دیکھاسورج

خون کا رنگ سرِ افق تھا پھیلا پھیلا
ہائے اک زخم تھا وہ شام کا ڈھلنا سورج

ساتھ موسم کے شعاؤں کی حرارت بھی گئی
کس نے سوچا تھا بدل جائے گا جلتا سورج

تشنگی اور جلن جسم کی ایسے تو نہیں
میرے اندر ہے سوا نیزے پہ اُترا سورج

تابِ نظارہ تو اک خواب ہے دیوانے کا
کس نے دیکھا ہے کھلی آنکھ نکلتا سورج
کے ڈی مینی

۱۱:ڈاکٹر صابر مرزا
۱۹۴۷ تا ۱۹۱۷ عیسوی

ڈاکٹر صابر حسین مرزا المعروف صابر مرزا، بھروٹ تھنہ منڈی کے رہنے والے تھے عمر نے وفا نہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جلد ہی وفات پاگئے ۔ پہاڑی گوجری اور اردو میں خوب شعر کہتے تھے ۔ وفات سے تھوڑا عرصہ ان سے پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ پہاڑی میں”باغ بہاراں”رنگ رُتاں گلزار”وغیرہ مجموعوں کے علاوہ "خوشبو نما” اور حدِفراز منظر عام پر آچکے ہیں ۔ بعض اشعار:

آئینہ ،برف کا گھر ،ریت سلگتے صحرا
رُت کے جسموں پہ رکھی شوخ شرر ہو شاید

وسعتیں، رنگ، صدا درد، جھلستے موسم
ایسا لگتا ہے کہ وا کرب کا در ہو شاید
حسن و جمال کے وہ سائے نہیں رہے

جب سے تمہاری یاد کے سائے نہیں رہے
یادیں پکارتی ہیں کسی دلنواز کی
کیوں اب کسی سے درد کے رشتے نہیں رہے
اترے گی کیسے گھر میں ہمارے وہ چاند رات
صابر وہ بام و در وہ دریچے نہیں رہے

صابر مِرزا
۔۔۔۔۔
۱۲:بشیر بھٹ
۱۹۴۸ تا ۲۰۰۹ عیسوی
بشیر بھٹ کا تعلق خاص تحصیل منڈی پونچھ سے تھا۔ اردو کے لکچرار تھے ۔اور اپنے عہد کے نمائیندہ اردو شاعر تھے ۔خطابت و نظامت میں یگانہ روزگار تھے۔ مرحوم اسلامی و ملی جذبہ سے سرشار تھے۔غزلیہ اشعار وفورِ شوق سے لبریز معلوم ہوتے ہیں ۔
پہلے وقتوں میں رسالے تصاویر کی وجہ سے بکتے تھے اور اخباریں لتھو پرنٹ میں کھردرے کاغذوں پر چھپتی تھی ان اخباروں کو لوگ کم ہی خریدتے تھے۔ شاعر نے اپنے مشاہد ہی کیا ہی خوبصورت اشعار کہے ہیں۔:

تصویر کوئی جاذبِ قلب و نظر نہیں
اخبار کا بکے گا رسالوں کے شہر میں
معقول دام پر یہاں بِک سکتے ہیں ضمیر
چسپاں ہیں اشتہار دلالوں کے شہر میں
بعض اشعار
حکمرانی جنوں کی جہاں ہو وہاں
دانشِ علم و فکر و نظر کیا کرے

سب سے بہتر یہی ہے سب مل کر
قوم کی بہتری کی بات کریں
بشیر بھٹ
۔۔۔۔۔۔۔

۱۳:پرتپال سنگھ بیتاب
۱۹۴۹ عیسوی
تیشہ چُپ ہے خاموش آذر
پتھر میں بے چین ہے پیکر
پرتپال سنگھ بیتاب

پرتپال سنگھ بیتاب نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ہندوستان کے اردو کے غزل گو شاعر ہیں بنیادی طور پر پونچھ کے کھڑی گاؤں سے ہیں ۔ پرتپال سنگھ بیتاب کی شاعری پونچھ کی ملی جلی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں ۔ داغ اسکول سے متاثر ہیں ۔ غزل کے علاوہ نظم بھی کہتے ہیں ۔ پرتپال سنگھ بیتاب کے سات شعری مجموعے ایک جزیرہ بیچ سمندر،پیش خیمہ، خودرنگ، سراب در سراب، فلک آثار، موجِ ریگ اور نظم اکیسویں صدی منظر عام پر آچکے ہیں۔صوبہ جموں میں پرتپال سنگھ اردو غزل کے مستند حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مِرے ہی بطن سے پیدا ہُوا جو آخر شب
وہ قد میں مجھ سے بھی اونچا دکھائی دے رہا ہے

شا خیں نکالنا مِرا کتنا محال تھا
پیوست جڑ سے میں کسی بوڑھے شجر میں تھا

اونچا پہاڑ چڑھ کے اترنا پڑا اسے
جینے کاوقت آیا تو مرنا پڑا اسے

جانتا ہوں مجھے مروائے گا اک دن یہ مرا
دیر کو کعبہ تو کعبے کو کلیسا کہنا

پگڈنڈیوں کے جال نے الجھا دیا ہمیں
وہ راستے کہاں گئے جو مستقیم تھے

کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں
اور کچھ آزر پریشاں پتھروں کے درمیاں

پرتپال سنگھ بیتاب

ہم کوئی اور چیز دیکھتے ہیں
ہم کہاں پتھروں کو پوجتے ہیں

اے میرے خدا مجھ کو یہ توفیق عطاکر
جو دل پہ گذرتی ہے اظہار میں آوے

پاؤں میرے راستہ خود ہوگئے
ہر قدم پر اک نیا منظر کھلا

کچھ تو ہم پہلے سے بھی آزاد تھے
اور کچھ پرواز میں بھی پر کھُلا

نہ دے اونچائی میرے قد کو لیکن
مِری ہر شاخ کولیکن ثمر دے

مجھے پتھر ہی پتھر دے دیے ہیں
اب ان ہاتھوں کو آذر کا ہنر دے
پرتپال سنگھ بیتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۴:احمد شناس
۱۹۵۱عیسوی
احمد شناس کا تعلق شاہدرہ تھنہ منڈی سے ہے۔نہ صرف ہماری ریاست بلکہ قومی سطح پر اردو کے مشہور شاعر ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں احمد شناس کے حصے الفاظ کا جوہر آیا۔ الفاظ کو وہ بڑی مہارت سے مناسب نشستوں پر بٹھاتے ہیں۔ البتہ انکی شاعری عام فہم نہیں ۔ احمد شناس ان چھوئی زمینوں کا سفر کرتے ہیں ۔بڑی بات ہے کہ وہ اپنے مشاہدے سے شعر کہتے ہیں۔احمد شناس نے الگ ہی راستہ بنایا ہے۔ وہ کسی سے متاثر نہیں ہوئے نہ انکا رنگ کسی سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ دوسروں سے متاثر شعرا شاید انکے رنگ سے غیر آشنا ہیں ۔” پسِ آشکار” اور” آب رنگ”شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔نئے نئے موضوعات نئی نئی پیکر تراشیاں کرتے رہتے ہیں ۔
آنسو کو ایک بوند کو آنکھیں ترس گئیں۔
اس دھوپ میں جھلس گیا دوہا کبیر کا

لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں
لکھی ہوئی کتاب کے باہر بھی سن مجھے

ساتھ ہو لیتا ہے ہر شام وہی سناٹا
گھر کو جانے کی نئی راہ نکالی جائے
احمد شناس

یہ جو میری انگلیوں میں ہے اجالا حرف کا
ماورائے حرف بھی ہے اک ستارہ حرف کا

بچےنکال لائے ہیں خبریں نئی نئی
بوڑھے فلک کی جیب سے چیزیں نئی نئی

احمد شناس
برصغیر میں اردو غزل کے حوالہ سے احمد شناس کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ احمد شناس کی شاعری کی اوپری سطح ساکن و ایستادہ معلوم ہوتی ہے لیکن جونہی حساس قاری انکے اشعار کی گہرائی میں اترتا ہے تو اسکا سامنا ایک زبردست زیرِموج undercurrent سے ہوتا ہے یہ إتجاه خفي ،حساس قاری کے دل میں ہلچل مچاتا ہے اور انکے اشعار کی معنویت نیلگوں فضاوں میں ست رنگی دھنک کی طرح نظر آنے لگتی ہے ۔ دراصل سچاشعر قطعی معنی کی ترسیل کے بجائے ہمیں ایک دیر پا اور خارج از حدود کیفیت سے دوچار کرتا ہے ۔ شعر ملاحظہ کریں ۔

مرا کمال یہ لکھے ہوئے حروف نہیں
مِرے خیال کی ہے انتہا گلاب کا پھول
احمد شناس
لکھے ہوئے حروف کسی حد تک گلاب کے پھول کا وصف تو بیان کرسکتے ہیں لیکن گلاب کا پھول کا نظارہ و مشاہدہ عیناً و کاملاً نہیں کرواسکتے ۔ اشعار میں شاعرکے تخیل کا پورا اظہار ہو ہی نہیں سکتا ۔ اب اگر ہم اس شعر کو دوبارہ پڑھیں تو بالیقیں ہم خود کو اس شعر کی معنوی رنگین کمان کے قریب تر پائیں گے۔
مرا کمال یہ لکھے ہوئے حروف نہیں
مِرے خیال کی ہے انتہا گلاب کا پھول
احمد شناس
ہماری ریاست میں عہد حاضر میں رفیق راز احمد شناس ، پرتپال سنگھ بیتاب نے اردو غزل کو اس کنگرۂ بلند پر پہنچا دیا ہے ۔جہاں زمانے میں معدودے چند لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں ۔
بالخصوص احمد شناس کے دقیق مگر خوبصورت اشعار کی توضیحات کی کوششیں لاحاصل بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ احمد شناس نے ایسی ایسی نازک پیکرتراشیاں کی ہیں کہ جو ذرا سے چھیڑ چھاڑ سے اپنی فطری لوچ کھو بیٹھتی ہیں ۔
احمد شناس فکر و فن کے بلند مقام پر جا پہنچے انکے دیکھنے اور عام قاری کے دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
عالمِ نور سے نکلے ہیں اندھیرے کتنے
چادرِ خوف میں لپٹے ہیں اندھیرے کیسے

ایک سچّی بات تھی جو کفر بن کر رہ گئی
یوں الٹ کر رکھ مُلا نے چہرہ حرف کا

شوکتِ جسم بھی کشکول سی خالی نکلی
کام آئے نہ فقیروں کی خزانے کتنے

محولہ بالا اشعار نور سے اندھیرے نکلنا سچی بات کا کفر بننا بالکل نئے خیالات ہیں ۔ شوکتِ جسم کا خالی کشکول سا نکلنا ، عمدہ اور تازہ استعارہ ہے فقیر کا کشکول کبھی بھرتا نہیں یہ جسم اگر چہ خدا کا عطیہ ہے مگر اس سے بھی آدمی کو دست بردار ہونا ہی پڑھتا ہے ۔آخر میں ڈھانچہ خالی رہ جاتا ہے ۔
یہاں شاعری کی سرحدیں ساحری سے جاملتی ہیں

کیا سحر تھا بولے ہوئے الفاظ میں میرے
تم یاد دلاتے رہو میں بھول گیا ہوں
احمد شناس

احمد شناس نے پہلے دو شعری مجموعوں کے مقابلہ میں تیسرے شعری مجموعہ یعنی ” آب رنگ "میں قدرے سہل زبان استعمال کی ہے استعارے بہت ہی شفاف اور روشن ہیں ۔ میرے خیال میں احمد شناس کا شعری سفر نہایت بلند و مرتفع منزل تک جا پہنچا ہوں ۔اور اب انکے اشعار پختہ اور رس بھرے میووں جیسے معلوم ہوتے ہیں بقول رومی
لم یذق لم یدر هر کس کو نخورد
کی بوهم آرد جعل انفاس ورد

یہاں کہنا بے جا نہ گا کہ احمد شناس تنہائی کا شاعر ہے ۔انکی شاعری تخلیہ و خلوت گزینی کا ثمرہ ہے ۔سمندر کبھی شانت بھی ہوتا ہے کبھی برہم سمندر کی خامشی بطور استعارہ ملاحظہ کریں ۔
تمہارا نام سمندر کی خامشی جیسا
تمہارے نام کے حسنِ بیاں سے آؤں میں

اس عہد میں حب الوطنی کی طرف بہت شعرا نے دھیان دیا ہے غالباً آج کل لوگ خود کو گلوبل ولیج کے باشندے ہی سمجھتے ہیں لیکن احمد شناس نے ایک شعر میں حب الوطنی کا حق ادا کیا ہے ۔
اگر زمین پہ آنا ہو لوٹ کر مجھ کو
مری دعا ہے کہ ہندوستاں سے آؤں
اسی غزل کا اگلا شعر کمال کا ہے

پلٹ کے دیکھنا اس راہ میں قیامت ہے
کہاں سے تونے پکارا کہاں سے آؤں میں

"اس راہ میں قیامت ہے ” یعنی ہر لحظہ اس کی ہئیت کذائی بدلتی رہتی ہے یہاں کوئی سنگ میل اور مستقل نشان قائم نہیں رہتا ۔ نہایت خوبصورت شعر ہے

مسافر اب کنارِ جسم پر بیٹھا ہے تنہا
قیامت خیز تھا اس کا جوانی سے گزرنا
احمد شناس

یہاں انسانی زندگی کو سفر اور انسان کو مسافر کہا ہے نہایت لاجواب شعر ہے ۔

استعجاب و حیرت معرفت کی ایک منزل ہے جہاں پہنچ کر خیر و شر سیاہ و سفید الغرض تمام تضادات ختم ہوجاتے ہیں
اسی کیفیت کے بے پناہ غزل کے چند اشعار

آزاد ہوں یا گرفتار ہوں کیا ہوں
زنجیر ہے پاؤں میں مگر ناچ رہا ہوں

اُگ آئی ہیں دیوار میں دو بولتی آنکھیں
لاب نیند کہاں نیند سے میں جاگ گیا ہوں

کیا سحر تھا بولے ہوئے الفاظ میں میرے
تم یاد دلاتے رہو میں بھول گیا ہوں
لفظوں کی پوشاک میں تھے انداز بہت
ورنہ عریاں تھی میری آواز بہت
لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں
لکھّی ہوئی کتاب کے باہر بھی سن مجھے
یہ ضرورت کا سفر جانے کہاں لے جائے گا
چیز اونچی ہوگئی انسان کمتر ہوگیا

اصولوں سے ہے ذاتی سا تعلق آدمی کا
جو پرچہ لازمی تھا اختیاری ہوگیا ہے

احمد شناس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۵:خورشید کرمانی
۱۹۵۴عیسوی
پیاس بجھنے کا کوئی امکاں نہیں
آگ کردیتا ہے اب پانی مجھے
خورشید کرمانی
خورشید کرمانی کا اصلی نام خورشید احمد کرمانی ہے بنیادی طور فتح پور منڈی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن عرصہ سے پونچھ شہر آباد ہیں ۔ ۱۹۹۰ عیسوی کے آس پاس مسعود الحسن مسعود اور خورشید کرمانی نے پونچھ میں تہلکہ مچارکھا تھا۔ انکی دیکھا دیکھی نئی پود پروان چڑھی جن میں انور خان ، لیاقت جعفری، وغیرہ شامل ہیں۔ اس اعتبار سے خورشید کرمانی پونچھ میں نئی شعری روایت کے پیش رو ہیں ۔ دکھ کے موسم شعری مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔شریف النفس انسان مہر و خلوص کے پیکر ہیں ۔
نمونۂ کلام :

ہم سورج کے ساتھ کھڑے تھے
پھر بھی گھر تاریک پڑے تھے

میری ان سے کیسے نبھتی
ان لوگوں کے نام بڑے تھے

شہر کا بچنا ناممکن تھا
جھٹ سے دریا آن چڑے تھے

گھر میں لگتی ہے بیابانی مجھے
چاٹ نہ لے دشتِ امکانی مجھے

پیاس بجھنے کا کوئی امکاں نہیں
آگ کردیتا ہے اب پانی مجھے

سانپ جیسی چیز اک گھر میں رکھیں
پھر رات ساری اُس سے ڈر کے دیکھ لیں

کھڑکیاں کھلتی ہیں اب بھی چاپ پر
اُس گلی سے پھر گذر کر دیکھ لیں

ڈرتے ڈرتے سوچ رہا ہوں
خود سے کتنا خوف زدہ ہوں

ہمت کیسی مجبوری ہے
تنہا دریا روک رہا ہوں

سایہ اپنا دیکھ کے سوچوں
قد آور ہوں اور بڑا ہوں

غزل
گھر میں لگتی ہے بیابانی مجھے
چاٹ نہ لے دشتِ امکانی مجھے

امتحاں یوں میرے رہبر نے دیا
دے گیا اک سمت انجانی مجھے

پیاس بجھنے کا کوئی انکاں نہیں
آگ کردیتا ہے اب پانی مجھے

میرے حق میں اب دعا کرتے رہو
مار نہ دے میری سلطانی مجھے

کیا پتہ ہے اب کہاں لے جائے گی
اس بدن دریا کی لہو طغیانی مجھے
خوشید کرمانی
۔۔۔
۱۶:فاروق مضطر
۱۹۵۴ عیسوی
راجوری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ہمالین کالج آف راجوری کے بنیاد گذار اور سر پرست اعلےٰ ، مقتدر علمی و ادبی شخصیت ہیں ۔ ۱۹۷۴ عیسوی میں راجوری سے ” دھنک ” ادبی جریدہ شایع کیا۔جس کےکچھ شمارے، ای بکس ریختہ پر محفوظ ہیں ۔ جب تک کی فاروق مضطر نےخوبصورت شاعری کی ۔ پھر انصرامی مہمات میں مصروف ہو گئے ۔لیکن ادب سے اب بھی بدستور محبت کرتے ہیں اور ادیبوں کے مخیر اور قدردان ہیں۔ منفرد لہجہ کے شاعر نہایت خلیق اور زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں ۔
بعض اشعار:
ہمارا ربط و تعلق ہے چند شاموں کا
شجر پہ طائر موسم کا آشیاں جیسے

مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالےتھے
ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے

مثالِ برق گری اک آن تیغِ ہوا
ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے۔

فاروق مضطر
۔۔۔۔۔
۱۷:زنفر کھوکھر
۱۹۵۷ عیسوی
زنفر کھوکھر ۱۹۵۷ عیسوی میں تحصیل مینڈھر کے گاؤں گلہوتہ میں پیدا ہوئیں اور انکی تعلیم ایم اے بی ایڈ ہے ۔ ۱۹۷۵ میں زنفر کی شادی راجوری کے گاوں میں ہوئی۔ زنفر کھوکھر کے افسانہ کئی جرائد میں چھپ چکے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے ۔انکے چار افسانوی مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔خوابوں کے اُس پار، کانچ کی سلاخ، عبرت، پتھر کی سل ۔ اسکے علاوہ انشائیے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ زنفر کھوکھوکر ہمارے پچھڑے ہوئے علاقہ کی خواتین و حضرات کے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں

۱۸:رفیق انجم
۱۹۶۲ عیسوی

سب سمندر بارہا کھنگال ڈالے ہیں مگر
حیرتوں میں ڈالتی ہے دل کی گہرائی مجھے
رفیق انجم

رفیق انجم آوان موضع کلائی پونچھ میں پیدا ہوئے۔ ہہہت میڈکل آفیسر پھر امراض اطفال رہے ۔آجکل اردو کے پرفیسر ہیں۔ رفیق انجم اردو اور گوجری میں تحقیقی تنقیدی وغیرہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ اردو میں "خواب جزیرہ” اور "آکاش” ، زنبیل ( حصہ اردو) شعری مجموعے اور گوجری میں دل دریا مشہور ہے۔
غزل کے اشعار:

تم نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
عکس مٹ جائیں گے سارے آئینہ رہ جائے گا

جو ابھی سے بجھ گئے تیری وفاؤں کے چراغ
دور تک اندھے سفر کا سلسلہ رہ جائے گا

اب بھی مجھ سےچھین لیتے ہیں مجھے
چودھویں شب، چاندنی اور تیرا شہر

مجھ کو لے بیٹھی وفا کی جستجو
چارسو آوارگی اور تیرا شہر
رفیق انجم
رفیق انجم کی شاعری انکے عنفوان شباب کی یاد گار معلوم ہوتی ہے ۔ ان کے کلام کا نمایاں عنصر تغزل ہے ۔ اشعار میں عمق کے بجائے پایاب مضامیں ہیں البتہ روانی و سلاست کے باعث کلام جاذب محسوس ہوتا ہے ۔
غزل
پریشاں زندگی ہے اور ہم ہیں
تِری بیگانگی ہے اور ہم ہیں

شبِ تاریک میں یادوں کی خوشبو
ذرا سی چاندنی ہے اور ہم ہیں

اُدھر موج جوانی اور تم ہو
اِدھر تشنہ لبی ہے اور ہم ہیں

ہماری زندگی کیا زندگی ہے
کہ جاں تو چھن گئی ہے اور ہم ہیں
غموں کی بھیڑ میں کھوئے ہیں انجم
بس اک ان کی کمی ہے اور ہم ہیں
رفیق انجم
رفیق انجم کی شاعری انکے عنفوان شباب کی یاد گار معلوم ہوتی ہے ۔ ان کے کلام کا نمایاں عنصر تغزل ہے ۔ اشعار میں عمق کے بجائے پایاب مضامیں ہیں البتہ روانی و سلاست کے باعث کلام جاذب محسوس ہوتا ہے ۔
غزل
پریشاں زندگی ہے اور ہم ہیں
تِری بیگانگی ہے اور ہم ہیں

شبِ تاریک میں یادوں کی خوشبو
ذرا سی چاندنی ہے اور ہم ہیں

اُدھر موج جوانی اور تم ہو
اِدھر تشنہ لبی ہے اور ہم ہیں

ہماری زندگی کیا زندگی ہے
کہ جاں تو چھن گئی ہے اور ہم ہیں

غموں کی بھیڑ میں کھوئے ہیں انجم
بس اک ان کی کمی ہے اور ہم ہیں
رفیق انجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۹:پرویز ملک
۱۹۶۴ عیسوی

پرویز ملک کا تعلق درہال سے ہے۔اردو گوجری اور پہاڑی میں خوبصورت شاعری کرتے ہیں۔غزل کہتے بھی ہیں۔ اور جب اپنا کلام ترنم سے پڑھتےہیں تومشاعروں میں چھاجاتے ہیں۔لاابالی اور مست ملنگ شخص ہیں۔دنیا جائے باڑ میں وہ تو بس اپنی مستی میں رہتے ہیں۔ ۔
عوامی حلقوں میں بہت مقبول ہیں ۔ہمارے یہاں فکری شاعری کے بجائے شاعری کو تفریحی سرگرمی کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ بہر حال یہ بھی شاعری کا ایک رخ ہے ۔
۔۔
ہم تو پھولوں کو نہ کھلنے کی نصیحت دیں گے
لوگ بے درد ہیں چٹکی میں مسل دیتے ہیں

آنکھ سے آنکھ تو دل دل سے ملاکر دیکھیں
آؤ اک روز چراغوں کو جلا کر دیکھیں

جوانی بیچنے نکلے تھے گھر سے
شہر پہنچے تو بوڑھے ہوگئے تھے

کسی کو دیکھنے کا شوق ہم کو
کچھ اتنا تھا کہ اندھے ہوگئے تھے

تمہارے جگمگاتے شہر میں ہم
بہت میلے کچیلے ہوگئے تھے

سخت تیور نہ میرے ہاتھ کا پتھر دیکھو
میں بہت نرم ہوں آؤ مجھے چھوکر دیکھو

شہر کی یار! فلک بوس فصیلیں نہ گنو
رات سر پر ہے چلو کوئی کھلا در دیکھو

میرے پیروں میں تو زنجیر مِری اپنی ہے
کس کے نیزے پہ ہے پرویز مِرا سر دیکھو
پرویز ملک
۔۔۔
۲۰:ذوالفقار نقوی
۱۹۶۵ عیسوی
گاؤں گرسائی تحصیل مینڈر، ضلع پونچھ جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔ انگریزی کےلیکچرار ہیں لیکن اک عمر سے اردو کی گیسو سنوارنے میں لگے ہیں ۔ کلاسیکی روایت کے شاعر ہیں
۔اب تک تین شعری مجموعے شائع ہو چکی ہیں ۔”زاد سفر "اجالوں کا سفر” اور” دشتِ وحشت”۔ شریف النفس شخصیت کے مالک ہیں ۔دل و دماغ پر عقیدہ کی گہری چھاپ معلوم ہوتی ہے ۔سختی سےادب میں مقصدیت کےقائل ہیں ۔
بے چینی کے لمحے سانسیں پتھر کی
ذولفقار نقوی کی شاعری میں جذبات کی تند لہریں چنگھاڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔ نقوی شاعری کی مقصدیت کے قائل ہیں۔ میں سخت رجعت پسند ہیں ۔ ان کے کلام مذہبی و مسلکی عقائد کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگر کہیں اس حصار سے نکلتے ہیں تو شاعری میں اصلاح و استعدال کی ہی بات کرتےدکھائی دیتے ہیں ۔
انکے کلام میں اس قسم کے اشعار بہت کم ملتے ہیں ۔
مِرے کاندھوں پہ بار ہے اس کا
جو جنازہ ابھی اٹھا ہی نہیں
۔۔۔

پتھرائی سی آنکھیں چہرے پتھر کے
ہم نے دیکھیں کتنی شکلیں پتھر کی

غازہ پاؤڈر مل کر میں بھی آ جاتا ہوں سرخی میں
بک جاتا ہے چہرہ میرا سستے سے اخبار کے ساتھ

عمر تمامی شوق سے ہم نے ایک ہی تتلی پالی تھی
جب جب اس کو خواب میں دیکھا اڑتی ہے اغیار کے ساتھ
ذولفقار نقوی

۔۔۔
۲۱:لیاقت نیّر
۱۹۷۳ عیسوی
لیاقت نیّر ،کا تعلق سرنکوٹ تحصیل کے دھندکگاؤں سے ہے ۔ علی گڑھ سے ایم اے اردو کی ڈگری کی ہے ۔ آجکل بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں ایسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ کئی تحقیقی مضامین اور کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔”الفاظ سے آگے” سن اشاعت ۲۰۲۲ عیسوى”کانٹوں پہ زبان رکھ دی” سن اشاعت ۲۰۲۲ عیسوی "اجالے اپنی یادوں کے وغیرہ لیاقت نیر شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں اور کلاسیکی غزل کہتے ہیں:لیاقت۔ نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیں۔
اس قیامت میں اور کیا ہوگا
تیرے بارہ میں گفتگو ہوگی

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر

چاند تاروں میں انگڑائی لیتا رہا
چاندنی گُل کھلاتی رہی رات بھر

زلف گرتی رہی اس کے رخسار پر
زندگی ڈگمگاتی رہی رات بھر

میرے ادراک میں ہوئی شامل
خاک پھر خاک میں ہوئی شامل

کہ دشمن مِرا یار جانی ہُوا
شرر بے مکاں تھا مکانی ہُوا

تیرے آنے کی ہے خوشی لیکن
تیرے جانے کا غم ذیادہ ہے
لیاقت نیر

۔۔۔۔۔۔۔

۲۲:امتیاز نسیم ہاشمی
۱۹۶۹عیسوی
میں تو صحرا تھا مگر سبز ہوا جاتا ہوں
جانے کس جسم کو چھو کے یہ ہوا آتی ہے
امتیاز نسیم پونچھی

امتیاز نسیم ہاشمی کا تعلق مینڈھر کے نڑول گاؤں سے ہیں ۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے بعد اردو کے لیکچرار تعینات ہوئے ۔ اردو اور پہاڑی میں خوب شاعری کی ہے۔ بہت پہلے پہاڑی شعری مجموعہ "چِٹکا” منظر عام پر آچکا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ امتیاز نسیم ہاشمی شعر کی پہچان بھی رکھتے ہیں ۔ امتیاز نسیم کا اردو اور پہاڑی کلام شیرازہ کے علاوہ مقتدر جریدوں میں کلام چھپ چکا ہے۔ امتیاز نسیم ہاشمی شعر کم کہتے ہیں لیکن معیار پر ذیادہ دھیان دیتے ہیں ۔
نمونۂ کلام :
پہلے سب کھال اترتی ہے گھنی شاخوں کی
تب کہیں جاکے یہ پتّوں کی قبا آتی ہے۔
اے دیدۂ یعقوب تجھے کیا ہوا بتا
ایسا غمِ فراق مِری مستیوں میں ہے
ایک غزل کے چند اشعار:

دل پھر سے لرزتا ہے اُسی ایک شرر سے
گزرہ تھا جو اکبار کبھی اپنی نظر سے

منظر ہی نہیں کوئی یہاں دید کے قابل
موسم بھی ہے بدلا ہوا کچھ خوں کے اثر سے

تاریک شبِ ہجر گراں بار تھی لیکن
خائف زیادہ ہی میں کچھ رنگِ سحر سے

اک دور کی آواز بُلاتی ہی رہی ہے
آگے نہ بڑھا میں بھی کبھی حدِّ بصر سے

پہنچا ہوں جہاں پر بھی بہت دھوپ کامارا
پتّے ہی گرے ہوتے ہیں اس شاخِ شجر سے

امتیاز نسیم ہاشمی
۔۔۔۔
۲۳: روبینہ میر
۱۹۶۹ عیسوی
راجوری کے ایک علمی اور مقتدر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور پونچھ راجوری سے پہلی خاتون ہیں جس نے پونچھ راجوری کے پسماندہ علاقہ میں سخن کی شمع فروزاں کی ۔ روبینہ میر سہل ممتنع غزل کہتی ہیں ۔ انکے شعری مجموعے،آئینۂ خیال،تفسیرِ حیات،حرفِ راز، منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اپنے اشعار میں سماج کے غالب و قوی رجحان پر خفیف طنز کرتی ہیں۔ اور بعض غزلیں کلاسیکی طرز پر بھی کہی ہیں ۔

بات جو دل میں ہے کہہ سکتے نہیں
کیسی اپنی بے بسی ہے ہر طرف

سانس لیتے ہیں ہم کیسے ماحول میں
جو بھی منظر ہے وہ کربلا سا لگے

راز اب تک کسی پر نہ یہ کھل سکا
مر گئیں مچھلیاں کیسے تالاب میں
غزل
یوں نہ رنج و ملال کیجئے گا
یوں نہ جینا محال کیجئے گا

جن کا کوئی جواب ممکن ہو
ہم سے ایسے سوال کیجئے گا

ہم نے ہو آپ کا برا چاہا
پیش کوئی مثال کیجئے گا

لوگ پڑ جائیں جس سے حیرت میں
ایسا بھی کچھ کمال کیجئے گا

ہم کہ سنبھلے ہیں سخت مشکل سے
اب نہ پیدا وبال کیجئے گا

جس سے مضبوط دل کے رشتے ہوں
وہ تعلق بحال کیجئے گا
روبینہ میر

۲۴:لیاقت جعفری
۱۹۷۱ عیسوی
لیاقت جعفری کا تعلق پونچھ سے ہے ۔ ہائیر ایجوکیشن میں اردو کے ایسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ شعری و شاعری کی دنیا اور ملکی مشاعروں میں جانے پہچانے ہوئے شاعر ہیں ۔ عام فہم لب ولہجہ ہے۔انکے ہلکے پھلکے اور رواں دواں اشعار قارئین اور سامعین کے دل و دماغ میں کھب جاتے ہیں۔ لیاقت جعفری کسی بھی خیال کو اپنے منفرد رنگ میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںفی الحال
لیاقت جعفری کا فی الحال شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے البتہ انکا کچھ کلام ریختہ ویبسائٹ پر موجود ہے۔۔

درد نے میر تقی میر بنا رکھا ہے
مجھ کو اس عشق نے کشمیر بنا رکھا ہے

میں دوڑ دوڑ کے خود کو پکڑ کے لاتا ہوں
تمہارے عشق نے بچّہ بنا دیا ہے مجھے

مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مِرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
۔۔۔۔

برسرِ عام تماشا نہیں لگنے والا
اب مرے چہرے پہ چہرہ نہیں لگنے والا

ایک ہی کھیت وراثت میں بچا ہے مجھ کو
اسکو بھی اب کوئی دریا نہیں لگنے والا

جعفری عشق کرو عشق کرو عشق کرو
بس اسی جرم میں پرچا نہیں لگنے والا
۔۔۔
بیٹھے بٹھائے عشق کا آزار لگ گیا
بستر کے ساتھ دوستو بیمار لگ گیا

پودا ہے ایک جسم میں امید نام کا
اک بار جو اکھاڑا تو سو بار لگ گیا

اک خواب نوچ پھینکا جو کل رات جعفری
آنکھوں میں میری نیند کا انبار لگ گیا
۔۔۔۔
غزل

مسکراہٹ کو جیا غم کے سہارے ہم نے
زندگی کیسے سہے ناز تمہارے ہم نے

اختلافات رہے خود سے کئی برسوں تک
خود سے نفرت میں کئی سال گذارے ہم نے

پیاس نے توڑ دیا جسم کا رعشہ رعشہ
آخری سانس لی دریا کے کنارے ہم نے

نیند ٹوٹی تو یہ احساس ہوا آنکھوں کو
خواب تکنے میں کئی روز گذارے ہم نے

موج پھر جا کے سمندر سے بغلگیر ہوئی
ریت پر پھر سے کئی نقش ابھارے ہم نے

چیخ اُبھری تو ہواؤں نے اسے نوچ لیا
نام لے لے کئی دوست پکارے ہم نے

ہم نے ہر نیند تِری آنکھ کے دل میں رکھ دی
اور دیکھے ہیں کئی خواب تمہارے ہم نے

لیاقت جعفری
۔۔۔۔۔۔

۲۵:انور خان انور
۱۹۷۱ عیسوی
پونچھ شہر سے ہیں ۔اردو کے لیکچرار ہیں ۔باذوق شاعر ادیب اور براڈکاسٹر بھی ہیں ۔ پونچھ کی ادبی محفلوں کی روح رواں سمجھے جاتے ہیں ۔ شعرکہتے ہیں اور حاضر جوابی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ہندی بحر میں خوبصورت شعر کہے ہیں ۔فی الحال کوئی شعری مجموعہ نہیں شائع کیا ہے ۔ انور خان نے دراصل بہت کم لکھا ہے ۔ نمونۂ اشعار:

من مندر میں پیار کی کوئی گونج نہیں
بھیج کوئی میرا دیوانی یا اللہ

اپنے لشکر میں جب صرف بہتر تھے
ہم نے تب بھی ہار نہ مانی یا اللہ

میاں دل سے غلط فہمی نکالو
تمہارے بن بھی چل جائے گی دنیا

ہوا کے ساتھ اڑ جائے گا پانی
یہیں پھر لوٹ کر آئے گا پانی

ہماری پیاس یوں بڑھتی رہی تو
یونہی پھر آگ برسائے گا پانی

مسلسل بارشیں ہوتی رہیں تو
ہمارے گھر بھی آ جائے گا پانی
۔۔۔

۲۶:محتشم احتشام بھٹ
۱۹۷۱ عیسوی
احتشام بھٹ کا تعلق خاص منڈی ، پونچھ سے ہے ۔ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ۔ سوز و درد میں ڈوبے ہوئی غزلیں کہتے ہیں۔ سماجی و فلاحی کارکن ہیں اور مخلص انسان۔ محتشم احتشام بھٹ پونچھ کے معروف شاعر بشیر بھٹ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ بشیر بھٹ کی طرح بہت ولولہ انگیز اشعار کہتے ہیں ۔
نمونۂ کلام :

پہلے روتے تھے نہ تھا کوئی ٹھکانہ اپنا
اب تو اس بات کا رونا ہے کہ گھر رکھتے ہیں

ہم کو معلوم ہے معلوم ہمیں کچھ بھی نہیں
بے خبر رہ کے بھی ہم سب کی خبر رکھتے ہیں

ابھی تک بہہ رہا ہے کیا وہ دریا
مجھے جسکی روانی کاٹتی ہے

کبھی میری کبھی اُن کر بہو کی
مِری ماں زندگانی کاٹتی ہے

کئی کردار ہوتے ہیں کہ جن کو
کبھی خود ہی کہانی کاٹتی ہے

کچھ اک دن سے عجب حالت ہے مِری
کوئی وحشت پرانی کاٹتی ہے

محرّم جب بھی آتا ہے میرے گھر
یہ بستی میرا پانی کاٹتی ہے
محتشم احتشام بھٹ
۔۔۔۔

۲۷: مرحوم مغل فاروق پرواز
۱۹۷۱ تا۲۰۲۱ عیسوی

مغل فاروق پرواز کا تعلق پونچھ سے ہے۔ مغل فاروق پرواز کے اشعار سلاست اور روانی میں ظفر اقبال کی یاد دلاتے ہیں ۔”دہلیز”ادبی جریدے کے مدیر تھے . افسوس عمر نے وفا نہیں کی انکی بے موقع وفات سے پونچھ کی سر زمین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔مرحوم موقر جریدے” دہلیز "کے چیف اڈیٹر تھے اور ایک شمارہ میں ظفر اقبال کی ۱۱۰ غزلیات کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔ فاروق پرواز اور لیاقت جعفری اردو کےقدآور اور تنو مند شاعر ظفر اقبال سے بیحد متاثر ہوئے ہیں ۔ ظفر اقبال کے رنگ میں بعض اشعار اور غزلیں ملاحظہ کریں۔

پرتوِ ہر چہرۂ بے چہرگاں ہے آئنہ
میں اگر آنکھیں نہ موندوں تو کہاں ہے آئینہ

آئینہ در آئینہ در آئینہ کچھ عکس تھے
داستاں در داستاں در داستاں ہے آئینہ

میرے ہونے میں میرا ہاتھ کہاں سے آیا
آج پھر مسئلہ ذات کہاں سے آیا

دہلیز کے ۳/۴ شمارہ میں ایک غزل جو انہوں نے چھوٹے بھائی زمرد مغل کی نذر کی ملاحظہ کریں :

ز ہے نصیب اندھیروں میں نور جاگے گا
کسی وجود میں کچھ تو ضرور جاگے گا

اسی سے چاروں طرف پھر سے روشنی ہوگی
وہ ایک لفظ جو بین السطور جاگے گا
نہیں تھا کچھ بھی مِری جان تشنگی کے بغیر
مِرے وجود میں لیکن کبھی کبھی کے بغیر
مِرا سخن مِرا لہجہ ہزار معنی ہے
مِرے کہے پہ نہ جا میری ان کہی کے بغیر

ذرا سی بات پہ دنیا سے روٹھ جاؤں گا
پھر اس کے بعد میں جی لوں گا زندگی کے بغیر

کوئی بھی مجھ میں ابھی لوٹ کر نہیں آیا
الجھ رہا ہوں اندھیروں سے روشنی کے بغیر
میں جانتا ہوں کہ اب اس کے بعد کیا ہوگا
کہ ایک عمر گذاری ہے آگہی کے بغیر

میں ایک ذات کو محسوس کرتا رہتا ہوں
کبھی کسی کے علاوہ کبھی کسی کے بغیر

فاروق مغل پرواز کی پروازکا کوئی جواب نہیں ۔ انکا اسلوب پیچیدہ و ملفوف ہے ۔ بیشک انکے یہاں احساس انسلاخیت Alienationکا غلبہ ہے اور جذباتی معاملات جو کلاسیکی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے انکے یہاں سرے سے مفقود نظر آتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ اجنبیت مزید برہمی وفراریت volatility کو ہوا دیتی ہے ۔ جدیدیت کی خوبی کہئے یا خامی عصری شاعری میں عود کر آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاروق مغل پرواز کا اسلوب بالکل نیا ہے اور شاعری کی میدان میں انہوں نے اپنے سارے ساتھیوں اور ہم جماعتیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ انور لکھتے ہیں ۔
” ڈاکٹر مغل فاروق پرواز کی شاعری کے مطالعہ سے انکشاف ہوتا ہے کہ ان کی فکر ایک مخصوص صورتِ حال سے جلا پاتے ہوئے، اسکے زمانی و مکانی انسلاکات سے فیض یاب ہوتی ہیں اور اسکے جوہر کی وسیع معنویت کو روشن کرتی ہے اور لمحاتی صداقتوں میں آفاقی صداقتوں کے امکانات تلاشتی ہے۔ ان کی شاعری میں وجودیت پر جو ذیادہ زور ہے میرے خیال میں جدیدیت کے رجحان کا مرہونِ منت ہے۔اس رجحان میں ظاہر ہے کہ ابہام اور استعارہ سے ذیادہ کام لیا گیا ”
ادبیاتِ پیرپنچال ص ۲۱۲ /۲۱۳
غزل
رات کے پچھلے پہر مجھ میں کوئی ڈر جاگے
جاگتا ہے تو مِری جان مکرّر جاگے

آنکھ کھل جائے تو بدلی ہوئی دنیا دیکھوں
بند آنکھوں میں وہی روز کا منظر جاگے

دیکھ کر لفظ پسِ لفظ صداؤں کا سکوت
زرد ہونٹوں پہ کسی بول کا منتر جاگے

آج کی رات کوئی ہار نہ مانے خود سے
آج کی رات کوئی اپنے برابر جاگے

اب کے ہاتھوں سے مِرے کاش لکیریں پھسلیں
اور مجھ سا کوئی دن رات میں بڑھ کر جاگے

کوئی سوال کہیں محوِ اضطراب ہے کیا
کوئی جواب جو لفظوں سے دور جاگے گا

تمام شہر کا نقشہ بدل کے رکھ دے گا
وہ ایک خواب جو زخموں سے چور جاگے گا

کسی نے آنکھوں کو اپنی ضرور موندا ہے
کوئی تو نیند سے اپنی ضرور جاگے گا

۔۔۔
غزل

وہ پہلی بار جو دیکھا نہ تھا دکھائی دیا
پھر اس کے بعد کوئی نور سا دکھائی دیا

وہ بار بار کا دیکھا ہوا دکھائی نہ دے
کبھی کبھی تو ہمیں یوں لگا دکھائی دیا

جو ہونے والا ہے کھل کر وہ آج ہوجائے
جو ہورہا تھا وہی کونسا دکھائی دیا

پھر اس کے بعد کبھی اس طرف نہیں دیکھا
وہ بد دماغ جہاں پر نہ تھا دکھائی دیا

وہ میری راہ سے گذرا وہ میرے پاس آیا
وہ میرے سامنے مجھ سے ملا دکھائی دیا

غزل

وہی دریچۂ جاں ہے وہی گلی یارو
مگر نگاہ ارادہ بدل چکی یارو

کتاب حال کا کوئی ورق نہیں پلٹا
کتاب عہد گزشتہ بھی کب پڑھی یارو

ہم اپنے ذہن کی المایوں میں ڈھونڈیں گے
وہ ایک سال وہ اک ماہ وہ گھڑی یارو

اس ایک موڑ پہ تنہا ہمیں اکیلے ہیں
کہ پچھلے موڑ پہ دنیا بھی ساتھ تھی یارو

خدا کا شکر کہ سب خیریت سے ہے یعنی
مرے وجود میں ہلچل ہے آج بھی یارو

یہ اور بات کہ ان کو یقیں نہیں آیا
پہ کوئی بات تو برسوں میں ہم نے کی یارو

مغل فاروق پرواز
۔۔۔۔۔۔
۲۸:علمدار حسین عدم
۱۹۷۵ عیسوی
سرحدوں پر گولیاں چلنے سے یہ نہ سوچئیے
آدمی کاآدمی سے رابطہ کٹ جائے گا
علمدار عدمپ
علمدار حسین عدم کا تعلق پونچھ کے نواحی گاؤں بانڈی چیچی قصبہ سے ہے۔ کلچرل آفیسر ہیں ۔ علم و ادب کی زخدمت میں کمر بستہ رہتے ہیں ۔ اعلیٰ صلاحیتوں کےخوبصورت شاعر ہیں۔ پونچھ راجوری میں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔
لوگ کہتے تھے مرنے والا ہے
یہ جو چہرہ ہے دوسرا اس کا

ہمیں پتا بھی نہیں کس کی وہ کہانی تھی
وہ اس قدر تھی نئی کہ بہت پرانی تھی

کبھی جو دیکھ لیا اس کو دیکھتے ہی رہے
وہ اپنے آپ میں ٹھہری ہوئی روانی تھی
۔۔۔
خاموشی سے جب بھی ہم دو چار ہوئے
آوازیں آواز لگانے لگتی ہیں

مجھ کو باہر جاتے دیکھ کے زنداں سے
زنجیریں طوفان اٹھانے لگتی ہیں
علمدار حسین عدم
۔۔۔
۲۹:خالد کرار
۱۹۷۶ عیسوی
شیخ خالد کرار کا تعلق سرنکوٹ پونچھ سے ہے۔ شب خون تحریک سے متاثر ہیں۔ جدیدتر لہجہ کے شاعر ہیں سیاق پبلیکیشنز اور تفہیم سے وابستہ رہے ۔ ورود شعری مجموعہ شایع ہوچکا ہے اسکے علاوہ فکاہیہ مضمون کا مجموعہ مطبوعہ۲۰۱۵ عیسوی بھی قابل ذکر ہے۔خالد کرار کی غزلوں میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے ۔ انکی شاعری پڑھ کر قاری یاس و حرمان کی دھند میں کھوجاتا ہے ۔ بعض اشعار میں کریفٹ کے علاوہ لذت و کیفیت ہے مگر معانی کی قطعیت نہیں ۔
ٹوٹی ہوئی چھاگل میں مِری پیاس پڑی تھی
میں سمجھا خزانے مرے سامان میں آئے

بلا کی پیاس تھی حدِّ نظر میں پانی تھا
کہ صحرا آنکھ میں تھا اور گھر میں پانی تھا
کہا تھا کس نے کہ کتبے پڑھو مزاروں کے
تمہارا کام تو قبریں شمار کرنا تھا

ہماری ذات مسلسل سفر میں ہے اب بھی
ہمارا خود سے کوئی رابطہ نہیں ٹکتا
اشعار
اک جنس زدہ نسل ہے تہذیب کے پیچھے
بازار ہے اک کوچہ و بازار سے آگے

ہم لوگ کے منزل کے بھلاوے کے گرفتار
آثار سے پیچھے کبھی آثار سے آگے
خالد کرار غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں ان کے "آنگن آنگن پتجھڑ” افسانوی مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔کے فن کے بارہ میں جاوید انور لکھتے ہیں:
خالد کرار کے تخلیقی عمل میں الفاظ کے علامتی عوامل جس طرح داخل ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں فطرت اور خود کار یعنی غیر شعوری عمل کا بھی خاصہ حصہ ہے۔ان کے استعمال کئے گئے الفاظ ( استعارے) ایک مخصوص تصور کی تو نمائیندگی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی معنی کی کسی نہ کسی جہت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انہوں جن ( کلیدی )الفاظ کا استعمال کیا ہے انکی علامتی معنویت تو ہے ہی انکا منطقی ربط اس قدر مستحکم ہے کہ محض ایک واقعہ( معاملہ) کے بیان یہ سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ذہن کو کسی نہ کسی سماجی صورتِ حال کی جانب بھی منتقل کرتا ہے۔” (
ادبیات پیر پنجال ص ۸۸۔)
نمونۂ کلام:
کبھی تو ہیرو بناتا ہے اور کبھی جوکر
ہر ایک رنگ کے کردار میں ہے ساتھ مِرے

وہ سارے خیمے لگاتا ہے پھر اکھاڑتا ہے
سرابِ منزل و آثار میں ہے ساتھ مِرے

شکست و فتح جزا و سزا حساب و کتاب
ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ادھر یہیں ہوا ہے

ہماری خاک اڑا دی گئی سر افلاک
ہمارا کوئی حوالہ بچا نہیں ہوا ہے

ان کتابوں میں بس یہی ہے کمی
زیست کم فلسفہ زیادہ ہے
غزل
کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
بہت پختہ بہت ہی پاس سے باندھا ہوا ہے

ہمارے تخت کو مشروط کر رکھا ہے اس نے
ہمارے تاج کو بن باس سے باندھا ہوا ہے

سیاہی عمر بھر میرے تعاقب میں رہے گی
کہ میں نے جسم کو قرطاس سے باندھا ہوا ہے

مرے اثبات کی چابی کو اپنے پاس رکھ کر
مرے انکار کو احساس سے باندھا ہوا ہے

ہمارے بعد ان آبادیوں کی خیر کیجو
سمندر ہم نے اپنی پیاس سے باندھا ہوا ہے

سجا رکھی ہے اس نے اپنی خاطر ایک مسند
مرے آفاق کو انفاس سے باندھا ہوا ہے

غزل

بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں
اور اس خاک میں اب کوئی نشانی بھی نہیں

یہ تو ظاہر میں تموج تھا بلا کا لیکن
یہ بدن میرا جہاں کوئی روانی بھی نہیں

یا تو اک موج بلا خیز ہے میری خاطر
یا کہ مشکیزۂ جاں میں کہیں پانی بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سبھی بھائی مرے دشمن ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ میں یوسف ثانی بھی نہیں

سچ تو یہ ہے کہ مرے پاس ہی درہم کم ہیں
ورنہ اس شہر میں اس درجہ گرانی بھی نہیں

سارے کردار ہیں انگشت بدنداں مجھ میں
اب تو کہنے کو مرے پاس کہانی بھی نہیں

ایک بے نام و نسب سچ مرا اظہار ہوا
ورنہ الفاظ میں وہ سیل معانی بھی نہیں

شیخ خالد کرار
۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۰:عرفان عارف
۱۹۷۸ عیسوی
عرفان عارف کا تعلق پونچھ سے ہے ۔ ہائر ایجوکیش میں اردو کے ایسسٹینٹ پروفیسر ہیں ۔ بقائے اردو تحریک کے جموں و کشمیر کے وینگ کے صدر ہیں ۔ اردو کے فروغ میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ۔حیران ہوں کہ ڈھیر ساری مصروفیتوں کے باوجود شاعری کے لئے وقت نکال لیتے ہیں ۔

ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسی کوبھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
عرفان عارف
۔۔۔۔
۳۱:سلیم جاوید قریشی(سلیم تابش)
۱۹۷۳ عیسوی

سرنکوٹ کے ہونہار نوجوان شاعر ہیں ۔ خدا دا صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔ حسن خلق کی دولت سے مالال ہیں ۔موصوف نے شاعری میں عصری مسائل اور گھریلو زندگی اور دیگر معاملات کو بیان کیا ہے۔سلیم تابش کا کلام ادبی مجلوں اور اردواخباروں میں شایع ہوا ہے۔نمونۂ کلام
جن سے آتی ہو فقط بغض و انا کی بد بُو
پھر وہی رشتے نبھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے

تعلق اب پرانا ہوگیا ہے
اسے دیکھا زمانہ ہوگیا ہے

چھڑاتا ہے جھٹک کر مجھ سے پلّو
مِرا بچّہ سیانا ہوگیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۲:سردار جاوید خان
۱۹۸۰ عیسوی

سردار جاوید خاں کا تعلق نڑول مینڈھر سے ہے علی گڑھ مسلم یونیسورسٹی سے ایم اے سیاسات اور قانون کی ڈگری کے بعد وکالت پیشہ سے منسلک ہیں ۔۔پہاڑی اردو اور گوجری میں شاعری کرتے ہیں ۔ پہاڑی شاعری کا مجموعہ "مٹی”منظر عام پر آ چکا ہے ۔ شعر و شاعری کا شغفت رکھتے ہیں۔اردو میں بھی خوب شعر کہتے ہیں ۔

پھول پتّے بہار کیا معنیٰ
بن تمہارے سنگھار کیا معنیٰ

میری آنکھوں میں دھول رہتی ہے
اُس کے رخ پر نکھار کیا معنیٰ

تو نہ آئے گا میری سمت کبھی
اب ترا انتظار کیا معنیٰ
سردار جاوید خان
۔۔۔۔۔
۔۔۔
۳۳:عمر فرحت
۱۹۸۶ تا عیسوی
عمر فرحت کاتعلق راجوری شہر سے معیاری جریدہ تفہیم کے مدیر ہیں ۔ کم عمری میں کافی ادبی کام کرچکے ہیں۔شاعری میں یُوا ساہتیہ انعام یافتہ ہیں ۔” زمین زاد”اور "سرِ شاخِ تمنّا”دو شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔یہ کیا کم ہےکہ عمر فرحت نو عمری میں بڑے لوگوں مثلاً گوپی چند نارنگ،ظفر اقبال ، شمس الرحمان فاروقی، نظام صدیقی،کرشن کمار طور کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ میرے خیال میں ایسے حضرات کی رسائی واقعی انکے شہرت کے معاملہ میں سرخاب کا پر ثابت ہوا ہے۔ نمونۂ کلام :

تمہارے عشق میں بیمار کر دیا گیا ہوں
میں اپنے آپ پہ دشوار کر دیا گیا ہوں

بہت سے لوگ مرا سایہ بانٹنے لگے ہیں
میں راہ میں تری دیوار کر دیا گیا ہوں
عمر فرحت
۔۔۔
محولہ بالا زاید از دو درجن شعرا کا مختصر تعارف معہ نمونۂ کلام پیش کیا گیا ہے ،یہ کلام مطبوعہ کتابوں ،معتبر ذرایع اور موقر جرائد سے لیا گیا ہے ۔ ایسے بہت سے نوجواں شعرا ہیں۔ جن کا مطبوعہ کلام نہیں مل سکا ہے ۔کوشش میں لگا ہوں مزید کلام ملتے ہی اگلی قسط بھی ضبط تحریر میں لاؤں گا ۔
یہ تلخ حقیقت ہے۔ ہمارےاکثر شعرا کتاب چھاپنے سے گریز کرتے ہیں۔اسکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔مثلا عدمِ خود اعتمادی، مالی مشکلات، کمئِ مواد وغیرہ وغیرہ۔ اس مقالہ میں شامل شدہ کلام کافی غور و غوض اور تحقیق کے بعد ہی شامل مقالہ کیا گیا ہے ۔
پونچھ راجوری کی سرزمین زرخیز تو ہے لیکن شاید ہمارے شعرا اور ادباء راتوں رات بلندیاں چھولینا چاہتے ہیں ۔ اس صدی میں بھی میں اگر کسی کو انہماک و استغراق کے پیہم مواقع ملاجائیں تو بڑی شاعری کے امکانات بدستورموجود میں ۔ لیکن سوشل میڈیاپر سستی شہرت، ہمارے راہ کا روڑا بن چکا ہے ۔ شاعری لاکھ آمد سہی لیکن زبان اکتسابی عمل ہے ۔ ہمارے شعرا کو مشق و م
مزاولت اور انتہائی ثابت قدمی یعنی persistence
کے ساتھ مشق سخن جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ منزل مقصود پانے کے طویل المدّت ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ بانی نے کیا ہی خوب شعر کہا ہے۔
شاعری کیا ہے کہ اک عمر گنوادی ہم نے
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے