استاذ الاساتذہ چودھری دینا ناتھ رفیقؔ کی اردو شاعری

(دسمبر ۱۹۰۵ تا۱۹۹۲ عیسوی

پڑے افتاد جو سر پر اسے سہنا ہی پڑتا ہے
ستم کو سنگ دل اک دن ستم کہنا ہی پڑتا ہے

طبیعت نہ بھی چاہے اِس بُری دنیا میں رہنے کی
مگر جب تک خدا کا حکم ہے رہنا ہی پڑتا ہے

چودھری دینا ناتھ رفیقؔ

استاذ الاساتذہ ،چودھری دینا ناتھ کا تعلق موضع ہوتر حویلی پونچھ شہر سے ہے ۔دینا ناتھ رفیق بدری ناتھ پوری سگے بھائی تھے۔ پونچھ شہر کے وسط میں پوری بُک ہاؤس بہت پرانی اور مشہورکتابوں کی دکان ہے۔دینا ناتھ رفیقؔ بنیادی طور پر کشمیری اور اردو کے شاعر تھے ۔آپ پنجابی بھی جانتے تھے ۔ بقول سجاد پونچھی پنجابی میں شعر بھی کہتے تھے۔ پندرہ اگست۱۹۹۲ کو جب سجاد پونچھی گوجر ہاسٹل پونچھ کے وارڈن تھے تو انہوں نے پونچھ میں چودھری دینا نارھ کے زیر صدارت ایک مشاعرہ بھی کروایا اور اس کے چند ماہ بعد ہی رفیق اس دارِ فانی سے چل بسے ۔ چودھری دینا ناتھ رفیق کا شعری مجموعہ "سنبل و ریحان مشہور ہے ۔
عبدلقادر سروری لکھتے ہیں :
"دینا ناتھ رفیق نے طویل نظموں کی شکل میں مختلف مشاہیر کی وفات پر مراثی لکھے ہیں۔جن میں’’پنڈت جواہر لال نہرو،سردار ولبھ بھائی پٹیل،سبھاش چندر بوس،لال بہادر شاستری‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان میں انہوں نے ان مشاہیر کے انتقال پر قوم کو ہوئے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی رنج وغم کا بھی ذکر کیا ہے۔ان کی ایک طویل نظم’’شہیدِ اعظم۔حضرت امام حسینؑ سے خطاب‘‘ ایک بہترین مرثیہ سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔یہ جموں کشمیر میں اب تک کا پہلا ایسا مرثیہ ہے جو مرثیہ کے اصلی ہیرو حضرت امام حسین کی شہادت پر لکھا گیا ہے۔چونکہ مرثیہ کے اصطلاحی معنی شہدائے کربلا کی شہادت پر رنج وغم کا اظہار کرنا ہی لیا گیا ہے۔کربلائی مراثی میں حضرت امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی شہادت اور اس سلسلے میں ان پر جو مصائب پڑے اور جس طریقہ سے انہوں نے مقابلہ کیا۔اس کا ذکر کیا جائے۔یہ مسدّس کی ہیت میں لکھا گیا،ایک طویل مرثیہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں ایک مسدّس ؎

اے حسین ابنِ علی سرّ شہیدانِ جہاں
اے عَلم بردار حُریت انیس ِ بے کساں

اے جُری ہمت‘ کماندرارِ سپاہِ قد سیاں
اے کرم فرمائے مِلت‘ چاہ بے چار گاں

رہتی دنیا تک رہے گی یاد قربانی تری
تیغ کے سائے میں حق کی زمزمہ خوانی تری ؀۱

ان کے شعری مجموعہ’’سُنبل وریحان‘‘ میں ایک طویل نظم مرزا غالب کے خراجِ عقیدت میں لکھی گئی ہے۔اس میں غالبؔ کی عظمت کے ساتھ ساتھ ان کی موت کے کرب کا ذکر کیا گیا ہے۔’’مرثیہ غالب‘‘مثنوی کی ہیت میں لکھی گئی ان کی اہم نظم ہے۔ملا حظہ فرمائیں چند اشعار :

چاند بن کر جو ذکاوت کے فلک پر چمکا
تاج آسا جو سرِ علم وادب پر چمکا

نقش دنیا کے زمانہ تو مٹ سکتا ہے کون
غالبؔ کو زمانے میں بُھلا سکتا ہے کون”؀۱

عبدالقادر سروری نے چودھری دینا رفیق کو نظم و مرثیہ تک ہی محدود کردیا حالانکہ آپ نے غزلیں بھی بہت کہیں ہیں قطعات بھی کہے ہیں ۔انکی مزاحیہ نظم موٹھی نامہ مشہور ہے ۔ایسے ہی مزاحیہ اشعار زبان زد عام ہیں ۔

جیب کی ڈِبیا چھن چھن باجے
ہم سے آنکھ ملائے کون

فیشن کا یہ عالم دیکھو
گھنگھٹ میں شرمائے کون

چود ھری دینا رفیق کے غزلیں کلاسیکی رچاؤ کی حامل ہیں۔لیکن ان میں بلا کی روانی ہے ۔ چراغ حسن حسرت تو تین چار غزلوں کی وجہہ سے مشہور ہے بس یہی کچھ ان کا شعری سرمایہ ہے اور کچھ فکاہیہ نظموں کے ٹکڑے۔ حسرت کو شاعری کی فرصت ہی نہیں ملی اور البتہ صحافت میں بہت بڑا نام پیدا۔ شاعری میں حسرت اور دین محمد تاثیر کی چشمک رہی ۔شاعری میں دین تاثیر نے انہیں پنپنے نہیں دیا۔
غزل
یہ جس نے غم پہ غم ہم کو دیئے ہیں
اسی کا نام لے لے کر جئے ہیں

ہمیں آزار کی بھائی ہے لذت
خوشی سے زہر کے پیالے پئے ہیں

نہ کھل جائے کسی پہ رازِ الفت
اسی خاطر یہ لب اپنے سئے جاتے ہیں

ہمیں معلوم ہے ایفا نہ ہوں گے
جو وعدے آپ نے ہم سے کئے ہیں
پتہ بھی ہے کہ کیا الزام ہیں وہ

جنونِ عشق میں جو سر لئے ہیں

بھروسہ کیجئے گا کیا کسی پر
یہاں جتنے بھی بہروپئے ہیں
چودھری دینا ناتھ رفیق

ایک اور غزل جو بسمل سعیدی ( ۱۹۰۱ تا۱۹۷۷) کی مشہور زمانہ غزل ( سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ) کی زمین میں کہی ہے اور بلاشبہ دینا ناتھ رفیق نے اس انقلابی اور پیامی غزل کی زمیں میں تغزل کے پھلکاریاں تراش کر اپنی استادی کا لوہا منوایا ہے ۔
در جواب آں غزل بسمل سعیدی

اتر کر دل کی گہرائی میں گھر کرنا بھی آتا ہے
حسینوں کو لہو سے ہاتھ تر کرنا بھی آتا ہے

بہانا اشک ہی شیوہ نہیں مہجور عاشق کا
اسے ہر اشکِ نمکیں کو گہر کرنا بھی آتا ہے

نہ مظلوموں کی آہوں کو سمجھ تُو نارسا ظالم
انہیں آہوں کو اپنی بااثر کرنا بھی آتا ہے

نگاہِ ناز سکتہ ہی نہیں کرتی فقط طاری
اسے ہر بزم کو زیر و زبر کرنا بھی آتا ہے

پری چہرہ دلِ معصوم کو ہی لے نہیں اُڑتیں
انہیں ذی ہوش کو آشفتہ سر بھی کرنا آتا ہے

کسی کی یاد میں جو ہر سحر کو شام کرتے ہیں
انہیں ہر شامِ ہجراں کو سحر کرنا بھی آتا ہے؀۲
چودھری دینا ناتھ رفیق

قطعات

۔۔۔
دیکھتے آئے ہیں ہم قطرے کا طوفاں ہونا
ذرّۂ خاک کا اک کوکبِ رخشاں ہونا
دہر میں نام کا پانا بھی نہیں کچھ مشکل
سب سے مشکل ہے اگر کام تو انساں ہونا
۔۔۔۔۔
کلامِ شیریں سے دنیا کو رام کرتا جا
ہر ایک دل میں اتر کر قیام کرتا جا
صعوبتوں سےنہ ڈر آندھیوں سے خوف نہ کھا
خدا پہ رکھ کے بھروسہ تو کام کرتا جاہونا؀۲

۔۔۔

؀۱:کشمیر میں اردو،حصّہ سوم،پروفیسر عبدالقادر سروری،،کلچرل اکیڈیمی سرینگر کشمیر۱۹۸۲ء،،ص:۳۶۵ اور۳۶۶)
؀ بحوالہ تشکیل مطبوعہ ۱۹۹۰ ص ۹۷ تا ۹۹

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے